:بدھ مت سے اسلام تک کا سفر

  •   :بدھ مت سے اسلام تک کا سفر

    ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ صبح اپنے کام پر گئیں۔انہوں نے کچھ دنوں میں سری لنکا واپس جانا تھا۔آفس پہہنچ کر انہیں یہ معلوم ہوا کہ انکا ویزہ ان کے کفیل نے کینسل کر دیا ہے۔جس پر انکو بہت افسوس اور دکھ ہوا۔ کیونکہ ان کے پاس یہاں رہنے کی کوئی صورت نہیں بچتی تھی، نہ کوئی جاننے والا تھا اور نہ کوئی خاندان کا فرد جس کے پاس رہ کر وہ دوسری نوکری تلاش کرتیں۔ باقی ایک دوست تھیں جو مسلمان تھیں اور بیرون ملک کوئی کسی کو زیادہ دیر برداشت نہیں کرتا وہ دوست پناہ دیتی کو آخر کتنے دن۔  یہ خبر ان کے لیے قیامت بن کر برسی کیونکہ ایک وہی تھی جو اپنے خاندان کی کفالت کر ہی تھی۔ انکے بوڑھے والدین سری لنکا میں تھے جن کی روزی روٹی کا ذریعہ صرف وہی تھیں۔ جب انھوں نے یہ خبر سنی تو ان کو ایسا لگا کہ زمین ان کے پاوں سے نکل گئ ہے اسی لمحے وہ اپنے والدین کے بارے میں سوچنے لگی تھی ان کے دماغ میں نہ جانے کیسے کیسے خیال آ ہے تھے۔    وہ کسی کشماکش میں خود کو محسوس کر رہیں تھی۔ ان کے کفیل نے ان کو خروج ہونے کے لیے  24 گھنٹے کا وقت دیا۔ وہ اپنی تمام سوچیں لے کر واپس پیدل گھر کی طرف روانہ ہوئیں۔  آفس کا دروازہ کھولا تو وہاں سے اپنی دوست کو اندر آتے ہوئے دیکھا۔ دوست ان کو پریشان دیکھ کر وجہ معلوم کرنا چاہ رہیں تھیں لیکن وہ کچھ بتانے کی حالت میں نہیں تھیں ۔ ان کی دوست ان کو  افس سے اپنے گھر لے آئیں۔ بتاتی چلوں  کہ ان کی دوست مسلمان تھیں۔ تھوڑی دیر بعد ان کی دوست نے ان سے دوبارہ پریشانی کی وجہ پوچھی تو ایک سانس بھر کر  انہوں نے ساری تفصیل بتائی انکی دوست نےان کو مشورہ دیا کہ دعا کرو اللہ سے تو انہوں نے سوال کیا کہ وہ اللہ کیا کر سکتا ہے جس کو دیکھا ہی نہیں وہ مجھے کیا دے سکتا ہے۔ اور نہ مجھے دعا مانگنے کا طریقہ آتا ہے  ۔تو ان کی دوست  نے کہا کہ اللہ بہت کچھ کر سکتا ہے تم مانگ کر تو دیکھو۔ آپ صرف جائے نماز بچھا لو ۔اور اس پے بیٹھ جاو اور مانگنا شروع کر دو۔ جو دعا ہے وہ دل سے مانگو۔ انھوں نے اپنے سر کو ڈوپٹے سے ڈھانپ دیا۔ اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا دیا اور رو کر التجا کی کہ اگر تو ہے اور اگر تو یہ کر سکتا ہے تو مجھے یہ کر کے دیکھا۔ پھر میں تم پر یقین کر سکتی ہوں۔ یہ دعا مانگ کر وہ اٹھ گئیں۔ صبح کفیل نے فون کر کے ویزہ کینسل کرنے کے  لیے بلایا تو اس کی جگہ ویزہ لگا کر دے دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ان کی زندگی تبدیل ہونا شروع ہو گئ۔ اس لمحے سے وہ اللہ پر یقین رکھنا شروع ہو گئیں۔ نہ ان کو اللہ کا شکر ادا کرنے آتا تھا اور نہ شکرانے کے نفل ادا کرنے آتے تھے۔ انھوں نے جائے نماز پر صرف 3 بار سجدہ دیا اور اللہ سے محبت کا اظہار کیا۔ وہ دل ہی دل میں اللہ کو مان چکی تھیں اور بہت خوش تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ان کو نئ زندگی مل گئ ہو۔ کیونکہ یہ جوب ان کے لیے بہت مغی رکھتی تھی وہ ایک لمحہ اپنے والدین کے بارے میں سوچنے لگیں اور اس وقت ان کے چہرے پر اطمینان بخش مسکان تھی۔ اسی لمحے انھوں نے اپنے مزہب بدھ ہمت کو بھی خیرباد کہہ دیا۔ اور بدھ مت مزہب سے منسلک ہر رسم و راواج کو ماننے اور ان پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔ ان کے دل میں اپنے مزہب کے کیے پیار، محبت  اور احترام ختم ہو چکا تھا اور اسلام کے لیے محبت پیدا ہونے لگی۔ ان کا دل اب اپنے مزہب میں نہیں لگتا تھا۔ رسم و رواج تو وہ چھوڑ ہی چکی تھیں۔ ایک دن انھوں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے اپنی اسی دوست سے رابطہ کیا جس نے ان کا پریشانی میں ساتھ دیا۔ اور وہ مسلمان بھی تھیں۔ انھوں نے اپنی دوست کو دل کی بات بتانے کا سوچا اور بولا کہ وہ  تمام عقیدت اور احترام کے ساتھ اسلام قبول کرنا چاہتی ہیں۔اللہ کے راستے میں آنا چاہتی ہیں۔ تھوڑے دنوں بعد ان کو ایک شخص سے محبت ہو گئ اور وہ شخص بھی مسلمان تھے۔ ان کا تعلق پاکستان سے تھا۔ یہ رشتہ تقریبا چھ ماہ تک رہا۔ پھر جب ان کو جوب سے چھٹیاں ہوئیں تو انھوں نے اس شخص کے ہمراہ سری لنکا جانے کا فیصلہ کیا اور اپنے رشتے اور مزہب کے حوالے سے اپنے والدین کو آگاہ کرنا چاہا۔ جب وہ سری لنکا گئیں اور اپنے والدین کو بتایا کہ وہ اسلام قبول کر چکی ہیں۔ یہ سن کر ان کے گھر والوں کا رویہ ان سے بہت خطرناک تھا۔ کیونکہ مزہب تبدیل کرنا بہت نازک اور نا قابل برداشت معاملہ ہوتا ہے۔ ان کے والدین نے کہا اگر اسلام قبول کرنا ہے تو ہم آپ کے ساتھ نہیں ہیں۔ گھر والوں نے مارنا شروع کر دیا اور کہا تم اب گھر سے کہی نہیں جا سکتی یاد رہے کہ وہ شخص ان کا انتظار کر رہا ہے کہ وہ گھر والوں سے اجازت مانگے گئیں اور پھر وہ نکاح کے رشتے میں آ جائیں گے۔ جب کہ ان کو باہر جانے سے روک دیا گیا تو وہ چھپ کر اپنی دوست کے گھر گئیں جو ان کے گھر سے چند منٹ کے فاصلے پر رہتی تھیں۔ وہ وہاں گئیں لیکن اس دوست نے بھی ان کا ساتھ نہ دیا اور چالاکی سے ان کے بھائی کو فون ملا دیا۔ وہ دوست ان کی فمیلی فرنڈ تھیں۔ انھوں نے کال کر کے ان کے بھائی کو بولایا اور ان کے بھائی ان کو رات میں گھر لے آئے۔  جب وہ گھر آئیں تو ان کو مارنا شروع کر دیا۔ اتنا مارا کے ہاتھوں کے ناخن تک اتر گئے۔ منہ، ہاتھ، آنکھ سے خون بہنا شروع ہو گیا اور ایک کمرے میں ہاتھ پاوں میں زنجیریں ڈال کے بند کر  دیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ لیکن انسان کی قسمت میں جو لکھا ہوا ہوتا ہے وہ ہو کر ہی رہتا ہے اور اس کو مل کر ہی دہتا ہے۔ اور اللہ نے جس کے ہاتھوں سے مدد لکھی ہوئی ہوتی ہے وہی اس کو  مشکل سے نکال دیتا ہے، اسی کے ہاتھوں۔ جی ہاں ان کا ساتھ دیا ان کی ماں نے۔ ان کے والد شکار پر گئے ہوئے تھے تو پیچھے سے ان کی امی نے کمرہ کھول کر ہاتھوں سے زنجیریں نکال کر ان کو گھر سے بھاگنے کا بول دیا اور کہا کہ رات کے اندھیرے میں نکل جانا۔ وہ ائیرپوٹ کے لیے نکال گئیں وہاں ان کا وہی شخص انتظار کر رہا تھا۔ ائیرپوٹ جانے سے پہلے انھوں نے سری لنکا میں اسی شخص کے ساتھ نکاح کیا۔ اور پاکستان کے لیے پرواز لی۔ وہ خاتون، وہ عورت میری ماں ہیں۔ اور وہ شخص میرے والد ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن وہ خاتوں پانچ وقت کی نمازی ہیں۔ پورے روزے رکھتی ہیں۔ عمرہ بھی ادا کیا ہوا ہے۔ آج تک اسلام کو اپنے ساتھ لیے ہوئیں ہیں ۔اور آج تک وہ جو بھی دعا مانگتی آئیں ہیں اللہ نے ہمیشہ پوری کی ہے۔اب وہ ایک اچھی، کامیاب زندگی بسر کر رہی ہیں۔ یہاں آنے کے بعد ان کی ایک ہی خواہش ہی تھی کہ وہ اپنی فمیلی سے ملیں اور اللہ نے ان کی یہ خواہش بھی رد نہ کی اور ان کو 20 سال بعد اپنی فمیلی سے ملا دیا۔ اب ان کی فمیلی ان کو خوش دیکھ کر بہت خوش ہے اور اب روز موبائل فون کے ذریعے رابطے میں بھی ہیں۔ بیشک اللہ نیتوں کے حال سے با خوبی واقف ہے

1 comment