ہمیں پانی بھی چاہیے.

  • حالیہ انتخابات میں سیاستدانوں نے جس بنیاد پر عوام سے ووٹ حاصل کیا ان میں کرپشن سرفہرست اور بےروزگاری,معاشی بحران,توانائی بحران اور وہی روٹی کپڑا مکان شامل تھے ۔دھشتگردی کو اس الیکشن میں وہ اہمیت حاصل نہ تھی جیسے پچھلے انتخابات میں سیاست دانو کی سیاست کا مہور تھا ہالانکہ مستونگ میں سراج رائیسانی پر خودکش دھماکے میں سینکڑوں معصوم پاکستانی شہید ہوئے پشاور میں ھارون بلور اور کلاچی میں سابقہ صوپائی وزیر اکرام اللہ گنڈاپور کو خودکش حملے میں شہید کیا گیا۔پاکستان کے کامیاب ملٹری اپریشن کے بعد یہ واقعات اپنی نوعیت میں بڑے واقعات تھے لیکن دھشتگردی اب پاکستان کے تینک ٹھینک کی نظر میں وہ حساسیت نہیں رکھتی جتنی کرپشن اور معاشی بحران۔

    ایک اور بہت بڑا بحران جو ہماری اپنی غفلت کی وجہ سے ہمارے سر آن کھڑا ھے وہ ھے پانی کا بحران۔ انٹرنیشنل ماہرین کے مطابق یہ بحران پاکستان کیلئے دھشتگردی سے بھی بڑا چیلینج ھوگا اگر بروقت پانی کی قلت کو روکھنے کیلئے اقدامات نھیں کیے گئے۔پانی کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔لیکن باوجود اسکے پاکستان میں یہ نان ایشو ھے کیونکہ ہماری سوچ اور پالسی پانچ سالہ دور حکومت کی ہوتی ھے دور اندیشی اور نئی نسلوں کی فکر ہماری فطرت میں نہیں۔UNDP کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی کا یہ بحران ملکی سالمیت اور استحکام کیلئے سنجیدہ خطرہ ھے۔

    پانی کا یہ بحران آج کی پیداوار نہیں بلکہ ۱۹۹۰ سے آبی وسائل کے ماہرین نے حکومتوں کو انتباع کر رکھا تھا کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے لیکن پاکستان کے پالسی میکر کے کانوں پر جوں نہیں گزری۔۱۹٦۰ کے بعد پاکستان میں کوئی ڈیم نہیں بنایا گیا حالانکہ آبادی کا تناسب کئی گنا بڑھا۔۲۰۰۵ میں اس بحران نے اپنے اثرات دیکھانا شروع کر دیئے ۔ڈیمز میں پانی کی سطہ گرنے لگی اور حالیہ دور میں پاکستان کے دو بڑے تربیلہ اور منگلہ ڈیمز ڈیڈ لیول پر پہنچ گئے۔ PCRWR کے مطابق اگر پاکستان نے سنجیدہ توجہ نہ دی تو ۲۰۲۵ تک قہط اور خشک سالی کا شکار ھو جائے گا ۔پاکستان کے حکومتی ایوانوں میں اس مسئلے پر غیر سنجیدگی کو سیاسی نا اہلیت اور بے حسی کے تناظر میں دیکھا جاتا ھے۔اس وقت پاکستان کی صرف ۳۰ دن کے آبی وسائل کو ذاخیرہ کرنے کی قوت ھے جبکہ ہندوستان کی قوت ۱۹۰ دن اور آمریکہ ۹۰۰ دن کی قوت رکھتا ھے۔آئی-ایم-ایف کی مطابق پاکستان پانی کمی کے شکار ممالک میں تیسرے نمبر پر ھے۔۲۰۰۹ میں موجود پانی کی مقدار ۱۵۰۰ کیوبک میٹرپرایکڑ تھی جوکم ہو کر ۱۰۰۰ کیوبک میٹرپرایکڑ پر پہنچ گئی ھے۔اس کے علاوہ زیر زمین پانی کا سطہ بھی بادستور نیچھے ہو رہی ھے۔

    اپنی نااہلیت کو چھپانے کیلئے سیاست دان ہمیشہ کی طرح اپنے سر سے بوجھ ہٹھا کر یہ سہرا ہندوستان کے سر پر رکھ دیتے ھیں۔کبھی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کا راگھ آلاپ کر تو کبھی ہندوستان کے نئے ڈیمز پر تنقید یا گزری ہوئی حکومتوں کو قصور وار ٹھراتا ھے۔پاکستان کے پالسی میکرز کو خود زمہ داری لیے کر بر وقت اقدامات کرنے ہوں گے اور کرنے چاہیے کیونکہ بہت حدتک یہ مسئلہ انسان کی اپنی غفلت کا نتیجہ ھے ناکہ قدرتی۔جاگیردارانہ نظام معاشرت میں طاقتور طبقے نے آبی وسائل کو بھی اپنی جاگیر بنا لیا ھے اور پانی غریب طبقے کی پہنچ سے دور ھوتا جا رہا ھے ۔اگر سیاسی طبقے کی سوچ نہ بدلی اور وہی ماضی کی غفلت طاری رہی تو خدانہخواستہ اس مالک پاکستان میں صوبائیت اور لسانیت کی فضاۀ پیدا ہو اور ہمیں دھشتگردی کے بعد ایک اور جھنگ لڑنی پڑے۔کالاباغ ڈیم اگر سیاست کی نظر ھے تو اور بہت سے چھوٹے منصوبوں پر کام کر کے اس بلا سے نمٹا جا سکتا ھے۔روٹی کپڑہ اور مکان کے ساتھ "ہمیں پانی بھی چاہیے۔" نہ صرف یہ بلکہ ملک کے اندر آوازیں سنائی دے رہی ھیں کے پنجاب بڑا صوبہ ہونے کے ناطے چھوٹے صوبوں کے حق پر قابض ھے اور اس کا اظہار سندھ کی علاقائی سیاستدان آیاز پالیجو نے کیا۔صوبائیت اور لسانیت کے بنئاد پر پاکستان اس مسئلے کی بنا پر نفرتوں میں تقسیم ہونے کا اندیشہ بھی ھے۔

    پاکستان کی معیشیت کا دار و مدار زراعت پر ھے اور آبی وسائل کی قلت کی وجہ سے پاکستان معاشی بحران کابھی شکار ہو سکتا ھے۔ GDP کی ایک یونٹ کی پیداوار میں سب سے زیادہ آبی وسائل کے استمال ہونے والے ممالک میں پاکستان کا پہلا نمبر ھے۔توانائی کا بحران جس سے معیشیت کا پیا چلتا ھے کی اصل وجہ ڈیمز کا نہ ہونا ھے جہاں سے زیادہ مقدار اور کم لاگت میں توانائی حاصل کی جاسکتی تھی۔آج توانائی کے بحران کی وجہ سے ہماری معیشت کمزور ھے۔ آزادی کے وقت پاکستان کی آراضی کے پانچ فیصد آرازی جنگلات تھے جو اب دو فیصد رہ گئے ھیں۔جس کی وجہ سے پاکستان میں بارشیں اور موسمیات نامعلوم ہو گئے۔سال میں دس مہینے گرمی جبکہ دو مہینے سردی,بہار اور خزاں کے موسم ہوتے ھیں۔ہر سال گرمی کی شدت سے شہریوں کی اموات واقع ہوتی ھے اور نا بے ترتیب موسمیات کی وجہ سے فصلوں کی پیداور میں کمی واقع ہوئی ھے۔پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام بچھا ہوا ھے جس کی ہرسال صفائی اور دوسرے انتظامات پر اخراجات زیادہ آتے ھیں اسکے باوجود ٹیکس لاگو ہوتا ھے جبکہ قدرتی طور پر زیر آپاش زمین پر کوئی ٹیکس نہیں۔اس کے علاوہ پاکستان کے شہریوں کو تباہ کن سیلابوں کا سامنہ رہتا ھےکیونکہ اس پانی کو زخیرہ کر کے قابل استمعال لانے کی صلاحیت نہیں اور تباہی مچھاتا سیلاب سمنداروں میں ضایع کر دیا جاتا ھے۔

    کراچی اور ملک کے اور بڑے شہروں میں اب پینے کا پانی نایاب ہوتا جا رہا ھے جو کے ہر انسان کا بنیادی حق ھے۔ہمارے ملک میں کثیر تعداد ان مریضوں کی ہوتی ھے جن کو لاحق مرض گندا پانی استمال کرنے یا پانی کی کمی سے ہوتے ھیں۔تھر پارکر کی سیاہ مثال ہمارے مشاہدے کیلئے موجود ھے جہاں ماؤں کے لخت جگر ان کی گود میں جان دے گئے۔پاکستان اور بلخصوص کراچی میں اس نعمت کو ایک کاروبار بنا دیا گیا ھے جس میں زیادہ,سرگرم ٹینکر مافیہ ھے۔کچھ ماہرین شہروں میں آبادی کا تیزی سے بڑھتے تناسب کو بھی ایک وجہ بتاتے ھیں۔جب ملک کے دوسرے کونوں میں بنیادی ضروریات زندگی میاسر نہ ہوں تو شہروں کا روخ عوام کی مجبوری بن جاتی ھے۔یہاں پر زمہ داری کا پورا بوجھ حکمرانوں کی ناکس پالیسی پر ڈالنا زیادتی ہوگی۔اس وطن عزیز پاکستان کے باحثیت با شعور اور زمہ دار شہری کیا پانی کے ضیائع کو روکھنے میں ہم نے کیا کردار ادا کیا۔ہر جگہ اس خداداد نعمت کا ہم نے ضرورت سے کئی گنا زیادہ استمعال کیا اور صاف قابل استمعال پانی کو سیوریج کے گند کی نظر کیا۔کیا ہمارا فرض نہیں تھا کے ماور وطن کے آبی وسائل کا احتیاط سے استمعال کرتھے۔

    حالیہ کچھ مہینوں میں عدلیہ وہ پہلا ادارہ ھے جس نے مفاد عامہ کے مسائل کے از خود نوٹسیز کیس میں ڈیمز نہ بنانے پر مطالقہ افسران سے جواب طلب کیئے۔جوابات کے غیر تسلی بخش ہونے پر ڈیمز بنانے کیلئے چندہ اکھٹا کرنے کی مہم شروع کی۔چونکہ یئے کام حکومت وقت کی زمہ داری ھے جس بنا پر چندہ مہم کو مطلوبہ کامیابی حؒاصل نہیں ہوئی۔سپریم کورٹ نےنئے جمہودی دور شروع ہونے پر یہ چندہ اور ڈیم بنانےکی زمہ داری نئی تشکیل شدہ حکومت کے سپرد کی۔ یہاں غیر معمولی کام یہ ھوا کہ مسلح افواج کے افسران اور جوانوں نے اپنی تین دن کی تنخواہیں ڈیم کیلئے کیئے جانے والے چندے کو وقف کی جس سے واضح پیغام جاتا ھے کہ ہمارے قومی سلامتی پالیسی ساز اس بحران کو پاکستان کے استحکام کیلئے خطرہ سمجھتے ھیں اور اس خطرے سے نمٹہنے کیلئے سنجھیدہ ھیں۔