آپ کتنی بار چاند پر جا چکے ہیں

  • "اشفاق صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے جو لوگ اللہ کو،اسلام کو گالی دینا چاھتے ھیں ان کی جرات نھیں ھوتی وہ گالی مولوی کو دے کر اپنا سینا ٹھنڈا کرتے ہیں" لیبارٹری میں پروفیسر ہمیں مینڈک کے پھیپھڑوں کے خلیات کا نظارہ خورد بین سے باری باری کروا رہے تھے اور ہم ابکائیاں لے لے کر نظارے سے محظوظ ہو رہے تھے۔ مُلا کی باری آئی (قریباً ہر کلاس میں ایک داڑھی والا لڑکا ہوتا ہے جس کا نام مُلا ہی پڑ جاتا ہے) تو عادت کے مطابق اس نے خوب تسلی سے خلیات دیکھے اور مستقل سبحان اللہ کا ورد کرتا رہا۔ اس پر ہمارے روشن خیال پروفیسر کا چہرہ کچھ مزید ترچھا سا ہوتا چلا گیا اور ناپسندیدگی کے تاثرات چہرے پر بد نما پھوڑوں کی طرح ابھر آئے۔ "سر مجھے اجازت مل سکتی ہے؟ ظہر کا وقت ہو گیا ہے۔" ملا نے سر اٹھا کر پروفیسر سے سوال کیا۔ "ہاں ہاں بالکل جاؤ بھئی۔ ویسے بھی یہاں تو تمہارے مطلب کی باتیں زیادہ ہوتی بھی نہیں۔ مجھے لگتا ہے تمہیں زیادہ تر وقت مسجد مدرسوں میں ہی گزارنا چاہیے۔ تم اسی قابل ہو۔" پروفیسر صاحب الفاظ میں جتنے نشتر چھپا کر چلا سکتے تھے چلا دیے۔ مُلا نے مسکراتے ہوئے شکریہ ادا کیا اور لیب سے باہر نکل گیا۔ "دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور یہ ملا آج بھی زمین پر ٹکریں مارنے میں مصروف ہے۔" پروفیسر باآوازِ بلند بڑبڑائے۔ کلاس میں سارے ہی مسلمان تھے مگر "نمبر" چونکہ پروفیسر صاحب کے ہاتھ میں تھے اس لیے بعض لڑکے لڑکیاں خاموش رہے اور باقیوں نے مسکرا کر یا ہنس کر پروفیسر صاحب کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ سر کی بدقسمتی کہ کلاس میں مجھ جیسا بد زبان بھی موجود تھا جسے اگر مُلا کی کوئی خاص پروا نہیں تھی تو "نمبروں'' کی تو بالکل بھی نہیں تھی۔ "سر ۔ ۔ ۔ آپ کتنی بار چاند پر جا چکے ہیں؟" میں نے معصومیت سے پوچھا۔ "کیا مطلب؟" پروفیسر ایک جھٹکے سے سیدھے ہو گئے۔ ''مطلب سر آپ کو تو زمین پر ٹکریں مارتے کبھی نہیں دیکھا اور آپ نے جو ابھی ابھی مُلا کی چاند پر نہ جا سکنے کی وجہ بتائی ہے اس اعتبار سے تو آپ کئی بار چاند کی سیر کر کے آ چکے ہونگے۔ پلیز بتائیں نا کیسا ہوتا ہے چاند اور کیا واقعی چاند پر پریاں رہتی ہیں؟" میں بولنا شروع ہوا تو روانی میں بولتا ہی چلا گیا۔ جب پروفیسر کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھیں غصے کے مارے ابل کر باہر آنے کا راستہ ڈھونڈ رہی تھیں۔ "شٹ اپ۔ یو بلڈی سٹوپڈ۔ میں بیالوجسٹ ہوں۔ میرا کام چاند پر جانا نہیں ہے!!!"پروفیسر چلائے۔ "اوہ ہ ۔ ۔ ۔ تو آپ کو شاید کسی نے یہ بتا دیا ہے کہ مُلا خلاء باز ہے اور بیالوجی پڑھنے شوقیہ آتا ہے!" چڑے ہوئے کو مزید چڑانا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ ویسے بھی اب تو سر نے مجھے شٹ اپ اور سٹوپڈ جیسے سخت الفاظ کہہ کر باقاعدہ اعلانِ جنگ کر دیا تھا۔ "اگر خود نہیں ہے تو دوسروں کو بھی نہیں بننے دینا اس نے اور اس کی قبیل نے۔ یہ مُلے مسجدوں میں بیٹھ کر لوگوں کو لوٹے سے وضو کرنا سکھاتے ہیں یہ نہیں بتاتے کہ راکٹ بناؤ مشینیں بناؤ۔۔۔یہ پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ ہیں" پروفیسر نے مٹھیاں بھینچ کر بے ربط اور نامکمل سا جواب دیا۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مینڈک کے بجائے میرے ٹکڑے کر کے خورد بین کے نیچے ڈال دیں۔ "سر معاف کیجیے گا۔ مگر امریکہ کے چرچ میں بیٹھا پادری بھی لوگوں کو مشینیں بنانے کا نہیں کہتا۔ وہ بھی لوگوں کا بپتسمہ ہی کرتا ہے، لہک لہک کر آرکیسٹرا کے ساتھ عبادات کرتا ہے اور "مقدس روح" کے ساتھ باتیں کرکے لوگوں کے مسئلے حل کرتا ہے۔ مگر وہاں کا کوئی دانشور کوئی سائنس دان یہ کہتا ہوا نہیں نظر آتا کہ پادری ابھی تک لوگوں کو مقدس دعائیں یاد کرواتا ہے۔ کیونکہ وہاں ہر کوئی اپنی اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے اور اپنی اپنی ناکامی اور نااہلی کو تسلیم کرتا ہے۔ اگر ہمارے ہاں کا سائنسدان چاند پر نہیں پہنچ سکا تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ مُلا نے اس کا پائنچہ پکڑ رکھا ہے، بلکہ وجہ اس کی اپنی نااہلی ہے۔اور یہی حال ھمارے ملک کے سیاستدان،روشن لبرل قلمکار،ٹی وی کے اینکرز کا ھے کہ وہ بھی سارا ملبہ اسی مولوی کے کھاتے میں ڈالتے ھیں۔ جب تک ہم میں سے ہر کوئی اپنی اپنی کمزوریوں کو تسلیم کر کے ان پر محنت کرنے کی بجائے دوسروں پر الزام لگاتا رہے گا، ہم زمین پر ہی رہیں گے، ہمارا چاند کبھی نہیں چڑھے گا۔" میں نے "لیکچر" ختم کیا تو سر شعلے برساتی آنکھوں سے مجھے گھور رہے تھے۔ لیب میں بھی مکمل سناٹا تھا۔ ذرا سی نظریں گھمائیں تو محسوس ہوا ہر کوئی ہی مجھے گھور رہا ہے۔ میرے پسینے چھوٹ گئے۔ "سر میں بھی نماز پڑھ کر آتا ہوں۔" میں نے "بہانہ" بنا کر بیگ اٹھایا اور جو دوڑ لگائی تو سیدھا کینٹین آ کر رکا۔ بات پرانی ہوئی۔ امتحانات ہوئے۔ نتائج لگے۔ پوری کلاس اچھے نمبروں سے پاس ہو گئی۔ جشن کا سماں تھا۔ حتی کہ مُلا بھی اپنے ساٹھ نمبر لے کر پاس ہونے پر الحمداللہ کا ورد کر کے جھوم رہا تھا۔ خوشی کے مارے سب ہواؤں میں اڑ رہے تھے۔ صرف میں اکیلا تھا جو چاند پر اڑ رہا تھا۔ اور کیوں نہ اُڑتا۔ میرے پیپر میں جو آج چاند نکلا تھا۔ چودھویں کا۔۔۔مگر کچھ بیضوی سا۔۔۔ کمبختوں نے چاند پر جا جا کر اس کا حلیہ ہی بگاڑ ڈالا۔۔!!