سوشل میڈیا اور نوجوان نسل

  •  

    سوشل میڈیا سینکڑوں ویب سائٹس کا ایسا مجموعہ  ہے جس کے ذریعے گھر بیٹھے دنیا کے ہر کونے میں رابطہ کر سکتے ہیں یہ نہ صرف دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود لوگوں کے ساتھ رابطے کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہم ہر طرح کی خبر سے باخبر ہو سکتے  ہیں پرانے وقتوں میں لوگ ایک دوسرے کا حال جاننے کے لیے یا ایک دوسرے کو کسی خبر سے آگاہ کرنے کے لیے خط یا ٹیلی فون کا استعمال کرتے تھے لیکن آج کے اس جدید دور میں ایک دوسرے سے رابطہ کرنا یا پیغام رسانی بہت آسان ہو گیا ہے آج کل ہر گھر میں موبائل فون کا استعمال کیا جاتا ہے اور کوئی بھی پیغام ایس ایم ایس کے ذریعے منٹوں میں دوسروں تک پہنچایا جا سکتا ہے. سوشل میڈیا کی بدولت ہی آج پوری دنیا گاوں کی طرح ہوگی ہے. سوشل ویب سائٹس مثلا فیس بک ٹوئٹر واٹس ایپ یوٹیوب وغیرہ ہر گھر میں استعمال ہو رہا ہے جس کی بدولت گھر بیٹھے ہر طرح کی معلومات سے آگاہی حاصل کرسکتے ہیں. سوشل میڈیا کے بہت سے فوائد ہیں مثلا ہم میلوں دور بیٹھے اپنے رشتہ داروں سے منٹوں میں رابطہ کر سکتے ہیں. ہم تصویریں اور ویڈیوز وغیرہ آسانی سے ایک دوسرے کو بھیج سکتے ہیں ایسی  معلومات سے آگاہی حاصل کر سکتے ہیں جو بعض اوقات نیوز میں ہمیں نہیں بتائی جا تی. ہم سوشل میڈیا کے ذریعے تعلیم کے متعلق بہت سے فائدے حاصل کر سکتے ہیں.

    سوشل میڈیا نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے ناصرف نوجوان لڑکے لڑکیاں بلکہ آج کل ہر بچہ سوشل میڈیا کا استعمال کر رہا ہے.

    میرا یہ آرٹیکل لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ میں سوشل میڈیا کے کچھ نقصانات کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر سکوں میں سوشل میڈیا کے فوائد سے انکار نہیں کرتا لیکن سوشل میڈیا کے نقصانات سے کون آگاہ نہ ہوگا اس کے باوجود اگر کوئی جانتے بوجھتے اندھی کھائی میں گرنا چاہیے تو کیا کیا جائے؟یہ سوشل میڈیا ہی تو ہے جو نوجوان نسل کی گمراہی کا سب سے بڑا سبب ہے وہ نوجوان جنہوں نے طارق بن زیاد، ٹیپو سلطان اور محمد بن قاسم جیسی مثالیں پیش کرنا تھیں آج کل ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے سٹیٹس اپ ڈیٹ   کر تے نظر آتے ہیں وہ مسلمان جو عمل کا پیکر ہونے چاہیے تھے اب کسی مسئلہے پر صرف کومنٹس کرکے سمجھتے ہیں کہ ذمہ داری پوری ہوگی گویا انگلی کاٹ کر شہیدوں میں نام لکھوایا جارہا ہے

    اور دکھ کی بات تو یہ ہے کہ جو وقت تلاوت کلام پاک میں صرف ہونا چاہیے تھا وہی وقت اب فیس بک واٹس ایپ اور ٹویٹر وغیرہ  استعمال کرنے میں برباد ہو جاتا ہے

    سوشل میڈیا نے تو فاصلوں کو کم کیا ہے مگر آپ ہی انصاف سے بتائیے کے اس سوشل میڈیا نے اولاد کو والدین سے دور نہیں کر دیا؟اب تو یہ حال ہے کہ ماں باپ اولاد سے بات کرکے رائے طلب کرتے ہیں اور موبائل فون پر مصروف اولاد چونک کر پوچھتی ہے "جی کیا کہا؟"

    سوشل میڈیا سے کوئی قیامت خیز قسم کی تعلیمی امداد ملتی ہے لیکن اگر تھوڑی سی عقل کا استعمال کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ پست تعلیمی معیار کی بنیادی وجہ بھی سوشل میڈیا ہی ہے جو طالب علم تعلیمی مدد حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں کیا سرچ کرنا تھا اور گھنٹوں غیر ضروری چیزیں دیکھنے میں اپنا وقت ضائع کر دیتے ہیں

    آج کل کی نوجوان نسل کی کتاب سے دوری ہے نیٹ سے انٹچ رہنا ان کی مجبوری ہے علم اور حکمت کی باتیں ان کی سمجھ میں کہاں آتی ہیں لیکن فیس بک پر اجنبی لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے سعدی، اقبال اور شیکسپیئر کے اقوال سےبھرپور فائدہ اٹھایا جاتا ہے

    سوشل میڈیا نے نمودونمائش کو فروغ دیا ہے حد تو یہ ہے کہ اب لوگ کھانا کھانے سے پہلے بھی status update کرنا  فرض اولین سمجھتے ہیں گویا ایسا کرنے سے قیامت کے روز حساب کتاب میں کوئی کمی واقع ہو جائے گی

    میں نے بہت سے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ سوشل میڈیا برا نہیں ہے بلکہ اس کا غلط استعمال اسے برا بناتا ہے. مجھے انصاف سے بتائیے کہ سوشل میڈیا کا صحیح استعمال ہمارے بچوں کو کون سکھائے گا؟

    آج کل بچہ بچہ موبائل فون کا فتنہ ہاتھوں میں لیے گھوم رہا ہے آپ اسے کیسے سمجھائیں گے کہ اسے کیا دیکھنا ہے اور کیا نہیں؟

    منطقی اعتبار سے انسان اسی چیز کو اپناتا ہے جس میں خیر زیادہ ہو اور شر کم اور جس چیز میں خیر کی نسبت شر زیادہ ہو انسان اس چیز سے اجتناب برتا ہے آپ ایک ایسی چیز کو اپنانے کی ترغیب کیسے دے سکتے ہیں جس میں شر ہی شر ھو.

    یہ سوشل میڈیا ہے جس نے فاصلوں کو تو کم کرلیا مگر دلوں کو دور کردیا۔وقت کے زیاں کا سب سے بڑا سبب ہے .گناہ کو آسان کر دیا ہے مثلاً میوزک جو کہ حرام ہے باآسانی سنا جا سکتا ہے. اخلاق سوز چیزوں کو قابل رسائی بنادیا مرد و زن کے رابطوں کو آسان بنا دیا۔ جھوٹی سچی خبروں کے ذریعے سنسنی پھیلاتا ہے

    سوشل میڈیا کو ایک انقلاب لانے کا نام دیا گیا ہے لیکن میں یہ سوچتا ہوں کے سوشل میڈیا کے ذریعے آنے والے انقلابات نا پائیدار ہوتے ہیں اگر ہم انقلابات کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں جیسے کہ انقلاب ایران، انقلاب مصر، انقلاب فرانس وغیرہ تو ہمیں پتہ چلے گا کہ انقلاب تو مسلسل جدوجہد کرنے کا نام ہے انقلاب تو تیز و تند سیلاب کی مانند ہوتے ہیں  جنہیں ان لولے لنگڑے سہاروں کی ضرورت نہیں ہوتی

    مجھے یہ بتائیے کہ اسلام سے بڑا انقلاب بھی کوئی ہو سکتا ہے یہ انقلاب حضور صلی اللہ وسلم کی انتھک کوششوں کا حاصل تھا اور اس انقلاب کو رونما ہونے کے لئے کسی سوشل میڈیا کی ضرورت نہیں پڑی خدارا ہوش کے ناخن لو اور اس خود فریبی سے نکلو.

    ایک حدیث پاک کا مفہوم کچھ یوں ہے

    "آدمی کے ایمان کی خوبی یہ ہے کہ وہ لا یعنی اور فضول چیزوں کو ترک کردیتا ہے"

    اس سوشل میڈیا کے ذریعے آج کل بچے گمراہی کا شکار ہوگئے سوشل میڈیا کی بدولت ہی مختلف قسم کی برائیاں جڑ پکڑ رہی ہیں خاص طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے ہی  تصویروں کا غلط استعمال اور تصویروں کے ذریعے بلیک میلنگ بہت عام ہو گئی

    دوسروں کے اکاؤنٹس ہیک کرنا یہ سب کچھ سوشل میڈیا کی بدولت ہی ہے

    سوشل میڈیا کے بے جا استعمال کی وجہ سے بچوں اور نوجوانوں میں مختلف قسم کی بیماریاں پھیل رہی ہیں مثلا نظر کا کمزور ہونا اور نفسیاتی دباؤ وغیرہ

    سوشل میڈیا کے استعمال سے لوگ اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ ایک دن نہ استعمال کرنے کی وجہ سے ان کی پریشانی اور اعصابی تناؤ بڑھ جاتا ہے

    انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال ذہنی امراض کا سبب بن رہا ہے اس لئے ہمیں زیادہ سے زیادہ نوجوان نسل کو اس فتنے سے دور ر رہنے کی تلقین کرنی چاہیے والدین کو اپنے بچوں کو ضرورت کی حد تک سوشل میڈیا کا استعمال کرنے کی اجازت دینی چاہیے اور اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھنی چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور کیا نہیں

    نوجوان ہی کسی ملک کے مستقبل کی نشانی ہوتے ہیں اگر وہی گمراہی کا شکار ہو جائیں تو قوم کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا