سگریٹ نوشی

  • سگریٹ نوشی ایک ایسا زہر ہے جو شروع کرنے پر بہت اچھا لگتا ہے اور پھر بعد میں جان لیوا اور عذاب بن جاتا ہے یہ ایسی عادت ہے جو انسان کے جسم پر بری طرح حاوی ہوجاتی ہے اور اس سے چھٹکارا پانا ناممکن بن جاتا ہے ہر وہ آدمی جس کو اس چیز کی لت لگ چکی ہے وہ اس سے جان چھوڑانا چاہتا ہے  عموماً زیادہ تر نوجوان اس چیز کے عادی اپنی کمپنی کی وجہ سے ہوتے ہیں کافی نوجوانوں سے بات کرنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ عموماً سولہ سترہ سال کی عمر میں سگریٹ نوشی کا شکار ہوئے ہیں نوجوانوں سے بات کرنے کے بعد جو سب سے اچھے اور دلچسپ مزاحیہ بیانات سامنے آئے وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں پہلے ان لوگوں کی بات کروں گا  جو اب مجبور ہوگئے ہیں اور سگریٹ نوشی کرتے ان کو کم از کم  ۵ سال  ہوگئے ہیں

    عمر 27سال کا کہنا تھا میں نے سگریٹ نوشی گیارہویں جماعت میں شروع کی کیونکہ مجھے لگتا تھا سگریٹ نوشی سے بندے کا اسٹائل منفرد اور سب سے الگ لگتا ہے اس لئے میں نے سگریٹ نوشی شروع کی اور آج میں اس چیز سے بہت تنگ ہوں

    عمر بائیس سال کا کہنا تھا میرا کوئی دوست نہیں تھا میں اکیلا رہتا تھا پھر مجھے میرا دوست مل ہی گیا  اس دوست نے میرا وقت اچھا تو گزارا لیکن جاتے جاتے مجھے زہر دے گیا سگریٹ کی شکل میں .

    عمر 26 سال مجھے سگریٹ پینے والوں سے بہت نفرت تھی مجھے سگریٹ بہت برا لگتا تھا کالج  میں میرے دوست سگریٹ پیا کرتے تھے اور مجھے اپنے دوستوں کی یہ عادت بہت بری لگتی تھی ایک دن میں نے ایک سگریٹ اپنے دوست سے لی سگریٹ سلگائی صرف یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ لوگ کیوں پیتے ہیں اور اس میں کیا مزا ہے سگریٹ نے تب سے میری جان نہیں چھوڑی 

    جن لوگوں کو بھی سگریٹ پیتے کم از کم پانچ سال ہو گئے ہیں ریسرچ کے مطابق وہ سگریٹ سے  نفرت کرتے ہیں لیکن اس بری عادت کو چھوڑ نہیں سکتے  

    عمر 32 سال میں نے اپنے مشہور فنکار سے امپریس ہوکر سگریٹ شروع کیے لیکن اب خود پر ترس آتا ہے

    اب ان لوگوں کی بات کریں گے جن کو سگریٹ نوشی کرتے تھوڑا عرصہ ہوا ان سے میرا سوال تھا آپ سگریٹ کیوں پیتے ہیں؟   

    اب میں سگریٹ پینے کے ان کے دورانیے کے حوالے سے بات کرو گا 

    دورانیہ 6 مہینے سے میں سگریٹ پھونک رہا ہوں مجھے لگتا ہے سگریٹ   میرا بہترین دوست ہے میں جب اکیلا ہوتا اور بوریت محسوس کرتا تو سگریٹ لگا لیتا ہوں اور یہ سگریٹ میرا بہت اچھا ٹائم گزرتا ہے 

    دورانیہ چار مہینے سے میں سگریٹ پی رہا ہوں اور مجھے لگتا ہے سگریٹ سے میں سب سے زیادہ الگ اور منفرد خود کو محسوس کرتا ہوں 

    دورانیہ ۱سال میں سگریٹ  اس لیے پیتا ہوں مجھے لگتا ہے اس طرح میں  اپنے  آپکو ڈپریشن سے بچاسکتا ہوں

     

    سگریٹ نوشی ایک ایسی بیماری ہے جو شروع کرنے میں بہت اچھی لگتی ہو اور بعد میں یہ جان کا عذاب بن جاتی ہے انسان اس کو شروع کرتا ہے تو شروع شروع میں بہت اچھا لگتا ہے بعد میں یہ 1 بیماری بن جاتی ہے اور آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتی

     انسان جانتا ہے یہ اس کو نقصان دے رہی ہے لیکن پھر بھی وہ اس کو مسلسل اور دن بدن زیادہ پیتا جاتا ہے میرے ریسرچ اور خیال کے مطابق جب انسان سگریٹ شروع کرتا ہے شروع شروع میں اس کا دماغ اس چیز کا عادی نہیں ہوتا لیکن آہستہ آہستہ ایک سگریٹ دو میں دو سگریٹ 4 بن جاتے ہیں اس کا دماغ اس چیز کا عادی ہو چکا ہوتا یے اور اس کو زیادہ مقدار میں نکوٹین چاہیے ہوتی ہے سگریٹ پینے والے کے دماغ میں ایک چیز بیٹھ جاتی ہے اور دماغ  سگریٹ کو  ہر چیز سے جوڑتا جاتا ہے ۔

    مثال کے طور پر سگریٹ پینے والا چاہے غم میں ہوں یا خوشی میں ہر ایک موقع کے بعد اس کو سگریٹ چاہئے ہوتا 

    کھانا کھانے کے بعد اچانک سے کوئی بری خبر ہے تو سگریٹ نکالتا ہے 

    نیند کی کمی ہے تو انسان کو لگتا ہے کہ سگریٹ اس کا علاج ہے

    گویا سگریٹ ایک لازمی امر ہے جسے پورا کرنا فرض ہے

    ہمارے ملک میں تقریبا دوکروڑ عوام اس مرض میں مبتلا ہے اس میں زیادہ تر کالج اور یونیورسٹیوں کے نوجوان ہیں جو اپنے آپ کو اسٹائلش بنانے اور ہنسی مذاق میں دوستوں کے ساتھ بیٹھ کے یہ کام کرتے ہیں لیکن شاید انہیں اس چیز کی خبر نہیں کے یہ ایسا زہر ہے جو ان کی رگوں میں خون کی مانند شامل ہو رہا ہے اور جب وہ اپنی عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو ان کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اس زہر کے استعمال سے وہ مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہو گئے ہیں پھر وہ اس عادت سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں لیکن پا نہیں سکتے

    سگریٹ میں موجود نکوٹین ایسا زہر ہے جو انسان کی قوت ارادی کو اس قدر کمزور بنا دیتا ہے کہ انسان دن بدن اس چیز کا عادی ہوتا جاتا ہے اور چاہ کر بھی اس عادت سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا

    ہمارے ملک میں نوجوان کھلے عام پبلک پلیس پر سگریٹ پیتے نظر آتے ہیں لیکن ان کو روکنے والا کوئی نہیں

    سگریٹ بنانے والی کمپنیاں سگریٹ کی ڈبی پے لیبل کردیتے ہیں کہ "سگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے"

    میرا ان سے یہ سوال ہے کہ ان کی بنائی ہوئی چیز کسی انسان کی صحت کے لئے جان لیوا ثابت ہورہی ہے تو وہ اس چیز کو بناتے ہی کیوں ہیں؟

    کسی پبلک پلیس تعلیمی ادارے یا ریستوران میں صرف یہ لکھ دینا کہ  "سگریٹ نوشی منع ہے" کافی نہیں بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کرنا چاہیے.

    میں نے زیادہ تر تعلیمی اداروں میں سگریٹ کا استعمال کرتے نوجوانوں کو دیکھا ہے وہ دن بھر اس کام میں مشغول نظر آتے ہیں کیا تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اندھی ہو چکی ہے؟

    کیا انہیں نظر نہیں آتا کہ نوجوان جو ہمارے ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں وہ اپنی زندگی اس زہر سے تباہ کر رہے ہیں لیکن ان کی روک تھام کیلئے کوئی نوٹس نہیں لیا جا رہا.

    میں اب سگریٹ نوشی کی اثرات کے بارے میں بات کرنا چاہوں گا سگریٹ نوشی کا سب سے پہلا اثر انسان کی غذا کو کم کردیتا ہے سگریٹ میں موجود نکوٹین انسان کی بھوک کو مٹا دیتی ہے

    اور جب ہم اچھی غذا کا استعمال کرنا چھوڑ دیں گے اور ایک زہر کا استعمال کرنا شروع کر دیں گے تو ہمارا جسم دن بدن کمزور اور مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہو جائے گا.

    سگریٹ کے دھوئیں سے کینسر جیسی جان لیوا بیماری لاحق ہوسکتی ہے زیادہ تر منہ گلے اور پھیپھڑوں کا کینسر سرفہرست ہے

    سگریٹ کے بے جا استعمال سے انسان ڈیپریشن، نیند کی کمی جیسی پریشانیوں میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا میں آٹھ جان لیوا امراض  میں سے چھ امراض سگریٹ نوشی سے پیدا ہوتے ہیں جن میں دمہ،ٹی بی،پھیپڑوں کا کینسر،عارضہ قلب جیسے موذی امراض شامل ہیں

    ہم اس زہر کا استعمال کرتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ اس کے استعمال سے ہم اپنی زندگی تو داؤ پر لگا رہے ہیں ساتھ ساتھ ہمارے قریبی رشتہ دار سگریٹ کے دھوئیں سے مختلف قسم کی بیماریوں کا بھی شکار ہو رہے ہیں

    یہ ایسا زہر ہے جس کا اثر دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے

    آج کے اس دور میں نشہ آور چیزیں لعنت بن چکی ہیں جنہوں نے بہت سی زندگیوں کو مفلوج کردیا ہے

    انسان اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ان نشہ آور چیزوں کا عادی بن کر اپنے رب کو بھی ناراض کر رہا ہے اور اپنی زندگی بھی تباہ کر رہا ہے

    یہ آرٹیکل لکھنے کا مقصد یہی ہے

    مجھے اپنی حکومت سے گزارش ہے کہ منشات فروش اور نشہ آور چیزیں بنانے والی کمپنیوں کے خلاف نوٹس لیا جائے

    تعلیمی اداروں اور پبلک پلیس پر سگریٹ نوشی کرنے والوں کو سزا دی جائے

    والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر سختی کریں اور ان کو بری کمپنی سے دور رکھیں

    اسی میں ہمارے ملک کی ترقی و کامرانی ہے