ZINDAGI

  • زندگی قدرت کا عطا کردہ تحفہ ہے اللہ تعالی نے اس دنیا میں انسان کو پیدا کیا اس کو زندگی بخشی اور انسان کے اندر بہت سی صلاحیتیں پیدا کی تاکہ اپنی زندگی کا مقصد جان سکے زندگی گزارنے کے لیے جدوجہد کر سکے اس دنیا میں پوشیدہ رازوں کے بارے میں جان سکے لیکن زندگی کے بارے میں کوئی بھی انسان حتمی فیصلہ نہیں کر سکا کہ آخر زندگی ہے کیا؟کسی کے لئے زندگی خوشیوں سے بھرپور ہے اور کسی کے لئے دکھوں کا دریا ہے کوئی اپنی زندگی سے مطمئن ہے اور کوئی تنگ آ چکا ہے کسی کے لئے زندگی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جیسی ہے اور کسی کے لئے زندگی گرم لو کی طرح ہے جو اسے جھلسا کے رکھ دیتی ہے ہر انسان کی نظر میں زندگی کا ایک الگ معنی ہے درحقیقت زندگی تو غموں اور خوشیوں کا مجموعہ ہے اللہ تعالی نے انسان کو جو زندگی دی اس کا مقصد یہ نہیں کہ انسان دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر اپنی زندگی کا اصل مقصد بھول جائے وہ بھول جائے کہ اسے اس دنیا میں کس لیے بھیجا گیا ہے ہم بھول جائیں کہ یہ دنیا تو فانی ہے ایک نہ ایک دن فنا ہو جائے گی کیوں نہ ہم اپنی زندگی اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق گزار کر دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوجائیں لیکن افسوس آج کا انسان اپنی زندگی کا اصل مقصد بھول گیا ہے اور دنیا کی رنگینیوں میں اتنا کھو گیا ہے کہ اسے صرف اور صرف اپنے نفس کو مطمئن کرنا ہے اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے جدوجہد کرنی ہے ہم انساننوں نے اس دنیا کی عارضی زندگی کو اپنے اوپر حاوی کر لیا ہے ھم یہ بھول گئے ہیں کہ یہ دنیا تو فانی ہے ایک دن ہر چیز نے مٹ جانا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کا اصل مقصد بھلا تو بیٹھے ہیں لیکن تباہی ہمارا مقدر بنتی جا رہی ہے ہم اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اور زندگی میں بھرپور آسائشات پیدا کرنے کے لیے محنت جدوجہد کر رہے ہیں لیکن یہ مادی چیزیں ہماری روح کو کبھی سکون نہیں پہنچا سکتی اسی لئے تو آجکل ہر دوسرا انسان ڈپریشن کا شکار ہے اور زیادہ تر لوگ جب اپنی زندگی سے تنگ آجاتے ہیں تو خودکشی کرلیتے ہیں کیا وہ یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے مذہب میں خودکشی حرام ہے یہ زندگی تو اللہ کی دی ہوئی ہے اور وہ جب چاہے ہم سے لے سکتا ہے انسان کا اپنی زندگی پر کوئی حق نہیں کہ وہ خود اس کا خاتمہ کر دے بقول اقبال "عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی" یعنی انسان پہ منحصر ہے کہ وہ عمل سے اپنی زندگی خوشگوار اور پرسکون بنائے یا اپنی زندگی پیچیدگیوں اور پریشانیوں سے بھر دے عمل سے مراد یہ ھے کہ ہمیں اپنی زندگی سنت رسول کے مطابق گزارنی چاہیے ہمیں اپنی زندگی میں وہ کام کرنے چاہیے جس کا حکم اللہ تعالی نے ہمیں دیا جو ہمارے رب نے ہم پر فرض کیے نہ کہ ہم وہ کام کریں جو ہماری زندگی کو تباہ و برباد کر دے ہم انسان بھی عجیب مخلوق ہیں ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں بہت سے گناہ سر انجام دیتے ہیں لیکن جب بھی ہم پہ کوئی مصیبت آتی ہے تو ہم اپنے رب کے آگے جھک جاتے ہیں اور اس سے مدد مانگتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایک وہی ذات ہے جو ہمیں ہر مشکل سے نجات دلاسکتی ہے ہم یہ سب جاننے کے باوجود پھر بھی گناہ کرتے ہیں کیا ھم نہیں سوچتے کے ہمارے اس عمل سے ہم اپنے رب کو ناراض کر دیتے ہیں. دنیا میں کامیاب شخص وہ نہیں ہوتا جو محنت و جدوجہد کرکے زندگی کی تمام آسائشیں حاصل کرلے اور اپنے فرائض کو بھول جائے وہ یہ بھول جائے کہ اس کے پاس جتنی دولت ہے وہ اس رب کی عطا کی گئی ہے یہ کامیابی نہیں یہ تو ناکامی ہے جس نے اس شخص کو اپنے رب سے دور کردیا کامیاب شخص تو وہ ہے جو ہر حال میں اپنے رب کا شکر گزار ہوں زندگی میں کتنے بھی کٹھن مراحل ہو جتنی بھی پریشانیاں ہوں وہ ثابت قدم رہے اور اپنے رب پر بھروسا رکھے جو مشکل حالات کا مقابلہ کرکے ان کو بہتر بنائے مولانا طارق جمیل صاحب نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ زندگی آسان نہیں ہوتی زندگی کو آسان بنانا پڑتا ہے کبھی دعا کرکے ،کبھی صبر کر کے،کبھی معاف کر کے اور کبھی کچھ نظر انداز کر کے اگر ہم ان کی اس بات پر غور کریں تو ہمیں واقعی زندگی کی حقیقت کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ زندگی گزارنا اتنا آسان نہیں ہے زندگی گزارنے کے لیے بہت سے کٹھن مراحل کو طے کرنا ہوتا ہے زندگی میں ہر گزرتا پل کچھ چھین لیتا ہے اور کچھ دیتا ہے اور خوش قسمت شخص وہی ہوتا ہے جو وقت کے ساتھ سمجھوتا کر لیتا ہے کوئی بھی انسان آج تک زندگی کے نظریات کو سمجھ نہیں سکا لیکن میرے نزدیک زندگی محبت اور نفرت کا مجموعہ ہے ہم ہر ایک سے محبت سے پیش آئیں گے تو ہماری زندگی آسان اور پریشانیوں سے پاک ہو جائے گی ہماری زندگی میں جتنے بھی رشتے ہیں خاص طور پر والدین بہن بھائی دوست احباب ان سب کے ساتھ محبت اور عقیدت رکھنے سے ہماری زندگی میں خوشیاں آئیگی اور اگر ہم اپنے دل میں بغض اور نفرت پالیں گے تو ھم اپنے آپ کو تباہ کر دیں گے کوئی بھی رشتہ ہمارے ساتھ ہمیشہ نہیں رہتا یہی دنیا کا دستور ہے لیکن ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ہم اس دنیا میں جتنا وقت گزاریں محبت اور امن پھیلائیں ہمارے پیارے نبی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہمارے لئے مثالی ہے ‏ آپ نے اپنی زندگی میں بہت سی تکلیفیں دکھ برداشت کیے لیکن فتح مکہ کے موقع پر آپ نے سب کو معاف کردیا زندگی تو صبر کرنے کا نام ہے اور صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا " یہ زندگی دو دن کی ہے ایک دن تمہارے حق میں اور دوسرے دن تمہارے مخالف جس دن تمہارے حق میں ہو اس دن غرور مت کرنا اور جس دن تمہارے مخالف ہوں اس دن صبر کرنا" دو دن کی زندگی سے مراد انسان کو اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ یہ دنیا عارضی ہے ہمیں اس دنیا میں بھیجا تو گیا لیکن ہمیں واپس بھی لے جایا جائے گا سوچو کیا ہم نے اپنی واپسی کا سامان تیار کررکھا ہے ؟ یہ غرور تکبر کس کام کا جب ہم نے مٹی میں ہی مل جانا ہے زندگی میں بہت سے خوشگوار مراحل گزرتے ہیں جیسے ہمارا بچپن سکول کالج کی زندگی جب ہم ہر پریشانی فکر سے آزاد ہوکر صرف اور صرف اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلوں اور پڑھائی میں مصروف رہتے تھے وہ وقت بہت اچھا تھا "میرے بچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن" جب ہم اپنی پریکٹیکل لائف میں قدم رکھتے ہیں اور ہم پر ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے تو ہمارے پاس یہ حسین یادیں ہوتی ہیں جنہیں ھم یاد کر تے ہیں تو خوشی سے ھماری آنکھیں نم ہو جاتی ہے یہی تو زندگی کی حقیقت ہے کے وقت نے تو گزر جانا ہے ہمیں اپنا وقت اتنے اچھے سے گزارنا چاہیے کہ جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ہمیں صرف خوشی ھو نہ کہ پچھتاوے کا ڈھیر. زندگی نے ختم ہو جانا ہی ہے کوئی چیز جو باقی رہے گی وہ ہیں ہمارے اعمال وہ عمل جو ہم نے اس دنیا میں رہ کر کیے اچھے اعمال کا نتیجہ اچھا اور برے اعمال کا نتیجہ برا ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ ہماری وجہ سے کسی کی عزت پامال نہ ہو کسی کی آنکھ ھماری وجہ سے نم نہ ہو کسی کے دل سے ہمارے لئے آہ نہ نکلے کسی کے لئے ہم تکلیف کا سبب نہ بنیں کیونکہ اگر ہم کسی کے ساتھ برا کریں گے تو ہمارے ساتھ بھی برا ہی ہوگا کسی کے ساتھ زیادتی کرکے ہمیں اچھائی کی امید نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ یہ دنیا مکافات عمل ہے یہاں ہم جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے تو کیوں نہ ہم محبت اور امن کا گہوارہ بن جائیں ہر ایک کے لیے خوشی کا سبب بنیں ہر کسی کے غم میں برابر شریک ہوں کوئی مدد کے لئے پکارے تو ہم حاضر ہوجائیں کوئی بیمار ہو تو اس کی عیادت کے لیے پہنچ جائیں اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں یہی وہ اعمال ہیں جو ہمارے لئے آخرت میں کامیابی کا سامان ھوگا زندگی ایک راستے کی مانند ہے ایک ایسا راستہ جس پہ انسان چل چل کر بالآخر تھک جاتا ہے زندگی کی گہماگہمی انسان اس قدر مدہوش ہو جاتا ہے کہ اسے وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب انسان کو اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ اس کی زندگی اب ختم ہونے والی ہے پھر وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے لیکن سوچیں! اب اس چیز کا کیا فائدہ کہ انسان اپنی پوری زندگی دنیا کی گہماگہمی میں مشغول رہے اور آخر میں اسے اپنے رب کی یاد آئے اسے اس بات کا احساس ہو کہ اس نے دنیا میں آ کر اپنا وقت صرف فضول کاموں میں ضائع کیا ہے وہ کہتے ہیں نا " اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چک گئی کھیت"