Child labour

  • "مزدور بچے" بچےکسی گھر کے آنگن کا چراغ جو گھر میں قدم رکھتے ہی اسے روشن کر دیتے ھیں جب کوئی بچہ کسی کے گھر میں پیدا ہوتا ہے تو اپنے ساتھ ڈھیروں خوشیاں لے کے آتا ہے بچے تو پھول ہوتے ہیں آنگن کے پھول جن کو دیکھنے سے آنکھوں میں ٹھنڈک اور دل کو سکون محسوس ہوتا ہےکسی نے سچ ہی کہا ہے ھماری زندگی کا بہترین دور بچپن ہوتا ہے جس میں ہم ہر فکر اور پریشانی سے آزاد ہوکر اپنا وقت گزارتے ہیں بچے کسی ملک کا مستقبل اور قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں جب یہی بچے اپنی کھیلنے کودنے کے دنوں میں حالات سے مجبور ہوکر مزدوری پہ نکل آتے ہیں تو سوچئے وہ کیسے کسی ملک کا قیمتی سرمایہ بنیں گے؟ یہ ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے ایک ایسی حقیقت جو ہمارے معاشرے میں ناسور بن کر پھیل رہی ہے ہمارے ملک پاکستان میں غربت بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی آبادی جیسے مسائل کی وجہ سے کم عمری میں ہی بچوں کو مزدور بنا دیا جاتا ہے بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا جاتا ہے غریب آدمی اپنے گھر کا چولھا جلانے کے لیے اپنے بچوں کو قربان کر دیتا ہے اپنے بچوں کو مزدور بنانے پر مجبور ہو جاتا ہے وہ بچے جنہیں اس عمر میں سکول میں اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ پڑھائ، شرارتیں ،کھیل کود کرنا ہے افسوس اس عمر کے بچے ہمیں مختلف پبلک پلیس پے مزدوری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں بچے تو کس قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اور جب قوم کے مستقبل کو حالات کے پیش نظر مزدور بنا دیا جائے تو وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی ہمارے ملک پاکستان میں تقریبا چودہ سال سے بچوں کی مزدوری کا قانون بنا ہوا ہے یہ قانون ایک ایسی لعنت بن چکا ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا بلکہ دن بدن اس میں اضافہ ہو رہا ہے ہم نے اپنی روزمرہ کی زندگی میں ایسے بہت سے بچے دیکھے ہیں جو سخت دھوپ میں اینٹیں اٹھارہے ہوتے جس کی وجہ سے ان کے ننھے منے ہاتھ جل رہے ہوتے ہیں،سڑکوں پر چھوٹے چھوٹے بچے مختلف اشیاء بیچ رہے ہوتے ہیں کوئی گاڑیوں کے شیشے صاف کر رہے ہوتے ورکشاپس پر کام کر رہے ہوتے یہ وہ بچے ہیں جن کی خوشیاں اور خواب سب چھین لیے جاتے ہیں اور یہ مزدور بچے ہر طرح کی آسائشات سے محروم رہ جاتے ہیں پاکستان میں بڑھتی مہنگائی اور لاشعوری کی وجہ سے غریب والدین اپنے بچوں کو کم عمری میں ہی مزدور بنا دیتے ہیں. ایک گھر میں 7 کھانے والے اور ایک کمانے والا ہو تو اس گھر کا نظام چلانا آسان نہیں ہوتا غرباء بچوں کے سکول کے اخراجات پورے نہیں کر سکتے تو بچوں کی پڑھائی چھڑوا کر ان سے مزدوری کروانا شروع ہوجاتے ھیں ننھے منے ہاتھ جنہیں اس عمر میں کھلونوں سے مٹی سے کھیلنا ہوتا ہے وہ سخت کاموں میں لگا دیے جاتے ہیں بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات، حسرتیں اور ان کے خوابوں کو مار دیا جاتا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس نحوست کو معاشرے سے ختم کرنے کے لیے عمل درآمد نہیں ہو رہا دنیا میں تقریبا ہر ملک میں چائلڈ لیبر پر پابندی لگادی گئی لیکن پاکستان ایسا ملک ہے جہاں مزدور بچوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں تقریبا 3.8 ملین بچے 5 سے 14 سال کی عمر میں مزدوری کررہے ہیں جب یہ بچے اپنے ہم عمر بچوں کو سکول جاتے ،کھیلتے کودتے دیکھتے ہونگے تو ان کی روشن آنکھوں میں جگمگاتے خواب حسرت بن کر رہ جاتے ہونگے " میرے حصے میں کتابیں نہ کھلونے آئے خواہش رزق نے چھینا میرا بچپن مجھ سے" ہم لوگ بہت سے بچوں کو کوڑا کرکٹ اٹھا تے دیکھتے ہیں یہ بچے میلے کچیلے کپڑے پہنے اپنے ننھے منے ہاتھوں سے کچرا جمع کرتے ہیں صرف اور صرف اپنا پیٹ پالنے کے لیےـ جب وہ کسی ہسپتال کے باہر کوڑا کرکٹ جمع کرتے جس میں مختلف قسم کی ادویات اور کیمیکل بھی شامل ہوتے تو یہی بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں بہت سے بچے کارخانوں اور صنعتوں میں بھی کام کرتے ہیں ایسی جگہوں پر بننے والی اشیاء میں مختلف کیمیکل استعمال کیے جاتے ہیں جن کے دھوئیں سے بچوں کی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں غربت کی وجہ سے یہ بچے مزدوری تو کر رہے ہوتے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مزدور بچے اپنی صحت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہی چھوٹے چھوٹے بچے چوری کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کم عمر بچوں میں سوچ سمجھ کی کمی ہوتی ہے انہیں تو صرف دو وقت کی روٹی کی لالچ دے کر غلط کام کروائے جاتے ہیں ہم نے بہت سے بچوں کو بھیک مانگتے ہوئے بھی دیکھا ہے بلکہ روز دیکھتے بھی ہونگے یہ وہ بچے ہیں جن کے ہم عمر بچے گھروں میں اپنے کھلونے سے کھیل رہے ہیں اپنے والدین سے فرمائشیں کرکے خواہشات پوری کروا رہے ہوتے ہیں لیکن یہ بھیک مانگ کر اپنا پیٹ پال رہے ہیں غریبی بھی کیا ظالم چیز ہے میں نے سڑک کنارے معصوم پھول کی آنکھوں میں انتظار دیکھا ہے کہ کب بتی لال ہو اور کوئی اس کے گجرے خرید سکے تاکہ وہ شام کو گھر خالی ہاتھ نہ لوٹے میں نے گاڑیوں کے اڈوں پر ان معصوم پھولوں کی بےچینی دیکھی ہے کے کوئی گاڑی رکے اور وہ اپنی ریوڑیاں مونگ پھلی کے پیکٹ بیچ سکیں کسی ماں کے لال کسی کے جگر کے ٹکڑے کسی ورکشاپ پر سخت استاد کے ہاتھوں مار پیٹ کھا کر بھی زبان میں تالے ڈال کر کام کر رہے ہیں صرف اسی ڈر سے کے شام کو گھر لوٹیں تو خالی ہاتھ نہ ہوں یہی نازک بچے اتنی سخت جان بنا دیئے جاتے ہیں کہ سخت سردی میں بھی وہ فٹ پاتھ پر سوئے نظر آتے ہیں ان کے چہرے سے معصومیت چھین لی جاتی ہے اور خواہشات ان کے اندر دب کے رہ جاتی ہیں "وہ سب معصوم چہرے تلاش رزق میں گم ہیں جنھیں تتلیاں پکڑنی تھیں، جنہیں باغوں میں کھیلنا تھا" کوئی ملک کیسے ترقی کی طرف گامزن ہوسکتا ہے جب اس کا مستقبل ہی داؤ پر لگ جائے یہ چھوٹے چھوٹے بچے ھی تو ملک کا روشن مستقبل ہوتے ھیں اور ان بچوں سے زندگی کی امنگ ھی چھین لی جائے تو ملک کو برباد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے سے اس لعنت کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہیے بچے ظلم و جبر برداشت کرکے زبردستی مزدوری کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ہمیں ایسا قانون بنانا چاہیے جس میں بچوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے خلاف سخت کاروائی ہو بچوں کی ضروریات کا خاص خیال رکھا جائے ان کی تعلیمی اخراجات ،ضروریات زندگی کی ہر چیز میسر کی جائے چائلڈ لیبر کے خاتمے کا کام صرف حکومتی سطح پر ہی نہیں بلکہ معاشرے کو بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہیے امیر سے امیر تر لوگ جب کسی غریب کو سہولیات مہیا کردے ان کی کفالت کریں گے تو یہ لعنت آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی ہر سال زکوۃ کی ادائیگی سے بھی کسی قریب کی مشکلات آسان ہوجاتی ہیں معاشرے کا حصہ ہونے کی وجہ سے ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم حسبِ توفیق غرباء کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھیں آسائشات کے ہونے کے باوجود ہمیں زندگی کو صرف اپنے دائرے تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اس دائرے کو وسیع کریں تاکہ ہمیں اپنے اردگرد غریب لوگوں کی مجبوری نظر آئے اور ہم ان کی مدد کے لیے ھر وقت تیار رہیں اسی طرح کروڑوں کے فنڈ جمع کرنے والے این جی اوز کو بھی چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے عملی اقدامات کرنے ہونگے ہم سب ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوکر جب اس مسئلے کو ختم کرنے کا عہد کریں گے تب ہی ہم کامیاب ہو سکیں گے