زندگی آسان نہیں ہوتی

  • آج کے اس جدید دور میں ہماری زندگی میں جتنی آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں اتنا ہی ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ہماری زندگی میں اونچ نیچ ناکامی، کامیابی، خوشی اور غم آتے جاتے رہتے ہیں جب بھی ہماری زندگی میں کوئی مشکل حالات آتے ہیں ایسے حالات کا سامنا کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی اسی وجہ سے کچھ لوگ ڈپریشن یعنی ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں ہمارے معاشرے میں ذہنی دباؤ کا مرض عام ہوتا جا رہا ہے روزانہ ہم کئی کام ذہنی دباؤ کی وجہ سے نہیں کر پاتے کسی بھی کام کو اچھے سے سرانجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا دماغ کسی بھی ذہنی دباؤ کا شکار نہ ہو ڈپریشن عمر کے کسی بھی حصے میں ہو سکتا ہے کام کی زیادتی اور ناکامی کی وجہ سے لوگ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اس کی کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی یہ ایک ذہنی تسلسل ہے جو انسان کے ذہن پر کبھی بھی طاری ہو جاتا ہے ہم سب عام طور پر اداسی مایوسی اور بیزاری کا شکار ہو جاتے ہیں اور یہ علامات تھوڑے ٹائم کے لئے ہم پر حاوی ہوتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہے جن سے ہماری زندگی پر کوئی اثر یا فرق نہیں پڑتا جیسے کبھی کبھی ہم اداس ہو جاتے ہیں اور یہ اداسی تھوڑے ٹائم کے لئے ہوتی ہے کسی اچھے دوست سے بات کرکے یا والدین کے ساتھ ٹائم گزار کر ہم اس سے چھٹکارا حاصل کر لیتے ہیں لیکن جب یہی اداسی اور بیزاری اتنی بڑھ جائے کہ اس میں کمی نہ ہو اور اس کی وجہ سے ہمارے روزمرہ کے معاملات میں پیچیدگیاں پیدا شروع ہو جائیں تو اسے ڈپریشن کہتے ہیں اگر بچوں کی بات کی جائے تو بچے بہت حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں وہ بھی ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں جب انہیں اردگرد کا ماحول اچھا نہیں ملتا گھریلو جھگڑے بچوں کو مار پیٹ ان سب سے بچے ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں بچوں کے ذہن پر اردگرد کا ماحول جلدی اثر انداز ہو جاتا ہے اگر انہیں گھر کا ماحول ہی اچھا نہیں ملے گا تو بچے کم عمری میں ہی خود اعتمادی اور نفسیاتی طور پر اپاہج ہو کر رہ جاتے ہیں اسی طرح آج کل نوجوان نسل زیادہ ڈپریشن کے مرض میں مبتلا نظر آتی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ زندگی میں ناکامی ہے بہت سے نوجوان لوگ ڈگریاں ہاتھ میں پکڑے نوکریوں کی تلاش میں گھومتے رہتے ہیں اور جب ناکام ہو جاتے ہیں تو ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں مزاج میں چڑچڑا پن اور اداسی ان پر مستقل حاوی ہو جاتی ہے بار بار کوشش کرنے کے بعد جب ناکامی ہی ان کا مقدر بن جاتی ہے تو منفی سوچیں ان کے دماغ میں داخل ہونا شروع ہو جاتی ہیں جس سے ان کی صحت اور دماغ پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں ایک سروے کے مطابق جو لوگ انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال کرتے ہیں وہ بھی ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین میں ماہرین نے ایک سروے مکمل کیا اس سروے سے ثابت یہ ہوا ہے کہ نشے کی حد تک انٹرنیٹ استعمال کرنے والے نوجوانوں میں،مناسب حد تک لمبے عرصے کے لئے آن لائن رہنے والے تیرہ سے انیس سال تک کی عمروں کے لڑکے اور لڑکیوں کا ڈپریشن کا شکار ہو جانے کا خطرہ بے حد زیادہ ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو لوگ اپنا وقت انٹرنیٹ کے استعمال میں صرف کر دیتے ہیں اور اردگرد کے ماحول کی انہیں فکر نہیں ہوتی گھریلو کاموں میں دلچسپی نہیں ہوتی پڑھائی پر ان کی توجہ نہیں رہتی ایسے لوگ ذہنی طور پر بیمار ہو جاتے ہیں ان کے مزاج میں بے چینی اور بیزاری آجاتی ہے اور کوئی بھی زندگی کے معاملات ان سے حل نہیں ہو سکتے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 34 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے اور ان کے علاج کے لیے ماہر نفسیات کی تعداد کم ہے ہمارے مذہب اسلام میں چودہ سو سال پہلے ہمیں ایسے مسائل سے چھٹکارا پانے کا حل بتا دیا ان سے فیض یاب ہونا ہمارا فرض ہے لیکن افسوس ہم اپنے مذہب سے اتنا دور ہو چکے ہیں کہ اپنی پریشانیوں اور مسائل کا حل ڈھونڈنے کی بجائے ہم مایوس ہو جاتے ہیں اور پریشانی اور مایوسی کو اپنا مقدر بنا لیتے ہیں اور پھر زندگی میں ہمیں ناکامی ہی ناکامی کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے ڈپریشن میں مبتلا افراد اپنے احساسات اپنے دوست احباب کے ساتھ شیئر کرکے اچھا محسوس کرتے ہیں بعض لوگ سائیکالوجسٹ کے پاس جاتے ہیں اور ان سے اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں آسانی سمجھتے ہیں جس سے ان کا ڈپریشن کافی حد تک کم ہونا شروع ہوجاتا ہے اس مرض میں مبتلا لوگوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ محض ان خیالات میں پھنسے رہنا ہی ہر مسلے کا حل نہیں ہوتا ہمیں اپنی منفی سوچوں کو پیچھے چھوڑ کر اپنی سوچ کو پاک کرنا ہوگا ایسے لوگوں کو اس بات کی یقین دہانی ہونی چاہیے کہ زندگی میں جیسے بھی حالات آتے ہیں وہ قدرت کی طرف سے ہیں تاکہ ہم ان حالات سے باخبر رہیں اپنے آپ کو ہر طرح کے حالات سے نمٹنے پر تیار رکھیں ہماری زندگی میں جتنی بھی مشکلات آتی ہیں ان کا حل صرف اور صرف ہمارے ذمہ ہوتا ہے محض ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر سوچنے سے کسی چیز کا حل ممکن نہیں خود کو سوچوں کے بھنور سے آزاد کر کے ہر مسئلے کو مثبت طریقے سے سوچنا چاہیے مایوسی کو اپنے اندر سے نکال کر باہر پھینک دینا چاہیے ہمیں ہرممکن کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ہر مسئلے کو آسانی سے حل کر سکیں اور اس سے ہماری زندگی پر منفی اثر نہ پڑے اور جب ایسا لگے کہ یہ آپ کے بس کی بات نہیں تو کسی سے مدد بھی لے سکتے ہیں وہ جب آپ ایسے منفی اثرات کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیں گے امید کا دامن نہیں چھوڑیں گے آپ کی زندگی آسانیاں پیدا ہو جائیں گی لندن کی یونیورسٹی میں ماہرین نے تجربہ کیا جس کے مطابق جو بچے یا نوجوان نسل اپنے والدین کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں یا ان سے اپنی باتیں یا کسی مسئلے کے بارے میں بات کرتے ہیں وہ ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے یعنی ہمارے والدین کبھی بھی برا مشورہ نہیں دیں گے ہمیں زندگی کے ہر معاملے میں ان کی رائے اور مشورہ لینا چاہیے ہمیں اپنے اردگرد ماحول کا جائزہ لینا چاہیے اور لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں بھی جاننا چاہیے کہ ہر ایک کی زندگی میں مشکلات اور پریشانیاں آتی ہیں بعض لوگوں کی زندگی ہم سے کتنی پیچیدہ ہے لیکن وہ پھر بھی ہر حالات کا اچھے طریقے سے سامنا کرتے ہیں اللہ تعالی نے انسان کو غور و فکر کرنے کے لیے پیدا کیا ہے کہ انسان گزارنے کے ہر اچھے طریقے کو اپنائے اور اپنی زندگی اچھے سے گزارے اسی لئے تو کہتے ہیں کہ زندگی آسان نہیں ہوتی اسے آسان بنانا پڑتا ہے _