یادگار انٹرویو

  •  
     
    آج کل ہر ایک بندہ فیس بک استعمال کرتا ہے ان میں سے ایک میرا دوست بھی ہیں جو کہ وہ بھی فیس بک یوز کرتا ہے۔پر وہ میرا بہت اچھا ہی دوست ہے بلکہ وہ میرے بھائی جیسا ہے۔وہ فیس بک یوز کر رہا تھا فیسں بک میں اسکو پرٹ ٹائم جوب کا لیسٹ سامنے آیا۔ تو میرے دوست نے سوچا کہ اس میں تو ڈیزائن کا کام بھی ہے یہ تو میرے دوست طفیل صاحبِ کر سکتا ہے۔ دوست نے مجھے کہا کے آپ اس جواب کے لئے اپلائی کروں۔ میں نے اس جاب کے لئے اپلائی کیا۔ اور دوست کوفون کی سکرین شاٹ بھی بھیجی کہ میں نے اپلائی کیا ہے۔میں نے سوچا چلو کرتے اگر ہوگئے ٹھیک ہیں۔کیونکہ اس جوب کی تنخواہ 15000 تھی۔تو مجھے اس ادارے کی ویب سائٹ سے کنٹیکٹ نمبر ملا میں نے فون کیا کہ میں نے اس جاب کے لئے اپلائی کیا ہے۔ تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپ نے اب تک کیا ڈیزائن کیا ہے۔ میں نے کہہ دیا کہ میں نے بے شمار پوسٹر ڈیزائن کی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس نے مجھے کہا کہ آپ مجھے ای میل کے ذریعے بیجو جو چیز اپنے بنائے ہوں۔ اُس نے مجھے میسج میں ای میل ایڈریس بھیجا۔ میں نے اس کو کچھ ڈیزائن ہوئی پوسٹر بھیج دیں جو کہ میں نے خود بنائی تھیں۔کچھ سی ڈی کاور تھے عید کارڈ ہیپی کارڈ وغیرہ وغیرہ۔ تو پھر دوسرے دن میں نے فون کیا کہ میں طفیل بول رہا ہوں۔ اب لوگوں کو میں نے اپنے ڈیزائن کی ہوئی پوسٹر ای میل کے ذریعے بھیجی ہے کیا آپ لوگوں نے اس کو دیکھا ہے۔اس نے کہا اچھا بھی میں دیکھتا ہوں۔ اس نے دیکھ لی پھر مجھے کہہ رہا تھا۔کہ آپ کو ہم دو دن میں بتائیں گے کہ آپ آؤ یا نہ آؤ ۔تو اس طرح شام کے وقت میں اپنے اس دوست کے ساتھ باہر گیا تھا۔ میں بائیک پہ تھا۔تو اس آفس سے مجھے تین بار کال آئی تھی۔ پر میں بائیک پہ تھا۔ میں نے اپنے موبائل کی آواز سنی ہی نہیں تھی۔جب میں اپنے گھر پہنچا۔ میں نے اس نمبر پے مسکال ماری۔تو آفس سے مزید تین منٹ بہت فون آیا۔ کہ آپ طفیل صاحب بات کر رہے ہو میں نے کہہ دیا ہاں میں طفیل صاحب بات کر رہا ہوں۔ اچھا تو طفیل صاحب آپ کل آجاؤ کل آپ کی انٹرویو ہیں۔ شام پانچ بجے۔ میں نے کہہ دیا چلو ٹھیک ہے میں آتا میں اون گا انشاءاللہ۔ تو اس طرح میں نے اپنے دوست کو فون کیا جس نے مجھے ایس کمپنی کا فارم جمع کرنے کو کہا تھا۔ تو میں نے اس دوست کو کہا۔ کہ قمر بھائی مجھے کمپنی فون آیا تھا۔کے کل میرا انٹرویو ہیں۔ تو مجھے دوست  نے کہا۔ چلو ٹھیک ہے کل پھر ساتھ چلتے ہیں۔اس ٹائم میں بہت زیادہ خوش تھا۔ میں بہت کچھ سوچ رہا تھا کہ مجھے جب تنخواہ ملیگی۔ تو میں نے اس تنخواہ کو 3 حصوں میں ڈیوائٹ کیا تھا۔ ایک حصہ میرا دوسرا میرے دوست کا اور جو تیسرا حصہ ہیں۔اس کے ساتھ میں اپنے لئے ایک گاڑی رکھوں گا آنے جانے کے لیے۔ تو اس طرح یونیورسٹی سے میرے گھر آیا۔اور مجے کہنے لگا کے میں بیس منٹ بعد واپس آتا ہوں میں ابھی گھر جا رہا ہوں کیونکہ میرا ہیلمیٹ گھر میں ہے ابھی میں واپس آجاتا ہوں میں نے کہا ٹھیک ہے۔4 بج گئے تھے میں نے نماز پڑھ لیں اس وقت بہت ساری دعائیں کی اپنی لیے اور دوست کے لئے بھی۔ نماز پڑھنے کے بعد تو جیسے میرے دوست واپس آیا میرے پاس مجھے کہنے لگا میرے پیارے بھائی آپ کی آج سے انٹرویو ہے میں نے کہہ دیا کہ ہاں مجھے بھی لگ رہا ہے۔اس نے مجھے کہا کہ آپ ایک جیکٹ پہن لو جب ہم وہاں سے واپس آئیں گے۔تو ٹھنڈ ہوگی۔میں نے کہا کہ نہیں میں سمارٹ ہوں۔وہ ہنس رہا تھا چلو ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی۔وہ اپنے گھر سے ایک کوٹ ساتھ لایا تھا۔کیونکہ میں ٹی شرٹ میں تھا۔ تو پھر اس نے مجھے دل دے دیا کہ آپ اس کو پہن لو۔تو پھر میں نے وہ کوٹ اسکا پہن لیا۔ہم بائک پہ جا رہے تھے۔ ساتھ ساتھ گپ شپ بھی لگا رہے تھے اور وہ مجھے تنگ کر رہا تھا۔تو جب ہم وہاں پہنچ گئے ہمیں آفس کا پتا نہیں تھا کہ یہ کہاں پر ہوگا۔ جو بھی بندہ سامنے آ رہا تھا تو اس سے پوچھ رہے تھے وہاں پر۔ آخرکار ہمیں آفس مل ہی گیا۔تو ہمیں انتظار گاہ میں بٹھا دیا۔دس منٹ ہم نے انتظار کی۔پھر مجھے اندر بلایا گیا کے طفیل صاحب آپ اندر آجاؤ آپ کے انٹرویو ہے۔ اس نے مجھ سے مختلف سوالات پوچھ لیں۔ اور میں نے ان کو فرفر میں جواب دیں۔اس طرح میرا دوست بھی پھر اندر آگیا انٹرویو کا جو کمر تھا وہاں۔تو جو اس کمپنی کا مالک تھا اس کی باتوں سے مجھے پتہ چل رہا تھا کہ یہ کوئی فضول سا انسان ہے۔ بڑی بڑی باتیں کر رہا تھا کہ ہم نے یہ کیا ہے وہ کیا۔صحیح بات بتاؤ مجھے بالکل اچھا نہیں لگا اور میں بور ہونے لگا وہاں ان کی باتوں سے۔اس طرح اس نے پھر مجھے کہا آخر میں کہ آپ ہماری کمپنی کے لیے ایک پوسٹر ڈیزائن کرو دو دن میں پھر ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ کو رکھے اور یا نہ رکھے۔ اور میں نے ایک قیدی ہے جلد سے جلد ہاہا چلو ٹھیک ہے میں بناؤں گا۔ (مجھے پتہ چلا کہ یہ فضول انہوں نے ہم سے پوچھ لیا کہ کونسے چائے پینا پسند کروگے ہم نے کہہ دیا کہ بلیک ٹی)۔ اللہ حافظ بھی ہوگیا لیکن چائے نہیں آئے۔وہاں سے جب ہم واپس آرہے تھے ہم دونوں بہت ہس رہے تھے ساتھ ساتھ۔کیونکہ میں فاسٹ ٹائم انٹرویو کے لیے کیا تھا اور اس سے ایک دن پہلے ان میرے ایک دوست کا بھی انٹرویو تھا۔لیکن میرے دوست کو وہاں کام کرنا اچھا نہیں لگا تو اس نے بھی اللہ حافظ کہہ دیا انکو۔ اب دوسرے دن میرا یہی حال تھا۔واپسی میں ایک جگہ پر باربیکیو ہو رہی تھی۔ میں نے دوست کو کہا کے وہاں پر تو میرے خیال سے باربیکیو ہو رہی ہے اس نے کہا ہے چلو کھا لیتے ہیں میں نے کہا چلو ٹھیک ہے۔ توہم نے بائیں سائیڈ پہ کھڑا کردیا اور ہم باربیکیو کھانے چلے گئے۔ باربیکیو کھالیں۔ وہاں سے ہم نکل آئے اور میرا جو دوست تھا وہ بائیک بھی چلا رہا تھا اور ساتھ ساتھ گنگنا رہا تھا۔ ماشاءاللہ اس کا بہت خوبصورت آواز ہے۔پھر اس نے مجھے فورس کیا کہ آپ ایک گانا گنگناؤں۔ میں نے کہا نہیں یار آپ کا اتنا خوبصورت آواز ہے کہ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں ابھی گانا گنگناؤں۔ تو اس طرح میرا گھر قریب آیا۔اس نے بائیک روک دی میرے گھر کے سامنے۔ اور میں بائیک سے اترا۔ میں نے دوست کو کہا کے آپ آ جاؤ ہمارے گھر ہمارے ساتھ کھانا کھا لوں پھر خیر چلے جاؤ۔ لیکن میرے پیارے دوست نے کہا نہیں ابو آیا ہے تین دن کے لیے گھر پھر وہ چلا جائے گا ابھی میں نہیں روک سکتا۔ میں نے کہہ دیا چلو ٹھیک ہے پھر کبھی سہی۔
    ہمیں اپنے بہترین دوست کا خیال رکھنا چاہیے۔جو کہ آپ کے ساتھ ہر وقت چاہے غم ہو یا خوشی ہو آپ کے ساتھ کھڑا رہتا ہوں۔اس طرح دوست کی بہت قدر کرنی چاہیے۔اس کا بہت خیال رکھنا چاہیے۔اس طرح دوست بہت کم ملتے ہیں یہ بہت نایاب ہوتے ہیں۔