ننھی دوکان


  •  
    میں دیکھ رہا تھا۔کہ ایک ماں اپنے بیٹے کو آہستہ سے مار رہی تھی۔بچہ بھی رو رہا تھا اور اس کے ساتھ ماں خود بھی رونے لگتی ہے۔مجھے عجیب سا لگا میں آگے بڑھ کر میں نے اس سے پوچھا۔بہن جی آپ اپنے بچے کو کیوں مار رہی ہو اور جبکہ آپ خود بھی رو رہی ہو اُس کے ساتھ۔ بہن جی نے مجھے جواب دیا۔ کہ آپ کو تو معلوم ہے کہ اِس کا باپ فوت ہو چکا ہوں۔طرح ہماری مالی حالت بھی ٹھیک نہیں ہیں۔میں دوسروں کے گھروں میں کام کرتی ہو اور اس کی پڑھائی کا خرچ مشکل سے اٹھاتی ہوں۔
    اور یہ کمبخت میرا بیٹا سکول سے روزانہ دیر سے آجاتا ہے۔ اور اس طرح سکول سے بھی گھر دیر سے آتا ہے۔پتہ نہیں راستے میں کہیں کھیل کود میں  کھیلنے لگ جاتا ہیں۔ اور پڑھائی کو ذرا سا بھی توجو نہیں دیتا ہے کمبخت۔یہ جب گھر سے نکلتا ہے اسکیم فورٹی کا صاف ستھرا ہوتا ہے اور جب یہ سکول سے واپس آتا ہیں تو یونیفوم گندی کر لیتا ہے ۔پھر میں نے اس کے بچے کو اور اُس کے ماں کو ذرا سمجھا بھی دیا۔ اور پھر میں چل گیا۔
    ایک دن میں صبح سویرے سبزی منڈی چلا گیا تھا تو تو اچانک میری نظر اس معصوم بچے پر ہوئے جو کہ 11 سال کا بچہ تھا۔جو کہ روزانہ گھر مار کھایا کرتا تھا۔اور منڈی میں اس بچے کو دیکھ رہا تھا۔ایک دکاندار اپنی سبزی بوری میں ڈال رہا تھا تو اس سے کچھ سبزی گر گئی تھی۔اور یہ بچوں ان سبزیوں کو اکٹھا کررہا تھا۔اور اپنی جھولی میں ڈال لیتا تھا۔میں اس بچے کو دیکھ کر بہت پریشان ہوا کہ یہ کیا ہو رہا ہے کیا چکر ہے آخر۔میں اس بچی کو چپکے چپکے دیکھ رہا تھا جب اس بچے کا جولی فل ہوگی تو وہ سڑک کے پار چلا گیا۔ وہاں پہ ایک دکان تھا اس کے سامنے بیٹھ گیا۔اور وہ اسے ایک دوسرا آدمی آ رہا ہے اس ننھے بچے کی دکان کو پاؤں سے مار کر سب چیزیں گھر جاتی ہیں۔اور یہ اس کو دیکھ کر رونے لگ جاتا ہے۔اور یہ بچہ پھر دوسرے دکان کے سامنے بیٹھ جاتا ہے۔جب اس کی ساری سبزیاں فروخت ہو جاتی ہیں تو یہ بچہ پھر کپڑوں والا دکان چلا گیا اس بچے نے وہ پیسے اس دکاندار کو دے دی۔اور پھر اس کے بعد وہ سکول چلا جاتا تھا۔جب یہ سکول چلا گیا تو وہاں استاد نے اس کو پھر سے مارا کہ آپ کیوں لیٹ آئے ہو۔پھر میں استاد کے پاس چلا گیا ہے پلیز اس سے نہ مارو یہ تو یتیم بچہ ہے۔پھر اس کے استاد نے مجھے کہا کہ یہ روزانہ لیٹ جاتا ہے ایک گھنٹہ۔میں اس کو روزانہ اس طرح ڈانٹتا ہو۔اور اس طرح میں اس کے گھر والوں کو بھی کہہ چکا ہوں کہ یہ روزانہ سکول ایک گھنٹہ لیٹ آتا ہے۔میں نے اسکی استاد کا نمبر لیا اور اسکے بعد میں پھر اپنے گھر چلا گیا اور میں یہ بھی بھول گیا تھا کہ میں جو سبزی لینے گیا تھا وہ میں گھر نہیں لایا۔رات کو مجھے یہی خیال آ رہا تھا کہ بچہ اب تو گھر گیا ہوگا ماں نے پھر اس کو مارا ہوگا کہ تم پھر سے لیٹ آئے ہو تمہارے کپڑے گندے ہیں۔مجھ سے رہا نہیں گیا۔جیسے ہی صبح ہوئی پہلے میں نے نماز ادا کی اس کے بعد میں نے ڈالی تھی استاد کو فون کیا کہ آپ پلیز ایک بار سبزی منڈی آجاؤ۔استاد مجھے ہاں کہہ دیا چلو میں وقت پر آجاؤں گا۔ جب سورج نکلا ہوا تھا۔اس وقت بچہ راستے میں تھا گھر سے نکلا تھا۔تومیں فورا جلدی جلدی اس کے گھر چلا گیا میں نے اس کی ماں کو کہا کہ آپ میرے ساتھ چلی جاؤں۔اس نے کہہ دیا ٹھیک ہے چلتی ہو۔ اور ساتھ میں یہ کہہ رہی تھی کہ میں وہاں جاکے اس کو بہت ماروں گا۔کیونکہ ماں کو تو پتا نہیں تھا کہ میرا بیٹا کیا کر رہا ہے وہاں۔تو میں نے ماں کو کہا کے آپ اس طرف کھڑی ہو جاؤ استاد کو بھی ساتھ کردیا اور ہم تینوں کھڑے تھے جب ہم دیکھ رہے تھے کہ وہ ننھا سا بچہ اپنا دکان سجا رہا تھا۔میں نے اس کی ماں کی طرف دیکھا ماں کے چہرے پر آنسو ۔ماں سسکیاں لے رہی تھی۔ماں  اپنے گھر کی طرف چلی گئی۔روتے روتے۔اور جب میں نے استاد کی طرف دیکھا تو وہ بھی سسکیاں لے رہا تھا۔سکول کی طرف چلا گیا پھر میں بھی اسکول کی طرف چلا گیا۔ ایک گھنٹے کے بعد یہ بچہ سکول آیا۔اور استاد کے سامنے کھڑا ہوگیا مار کھانے کیلے۔اور بچے نے اپنا ہاتھ آگے کیا تھا۔ استاد  اس کیساتھ سینہ ملا کہ رونے لگ گیا۔
    اور پھر میں نے اس بچے سے پوچھا۔آپ باکی پیسے کیوں کپڑوں والے دوکاندار کو دیتے تھے۔اس بچی کی یہ بات سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔بچہ کہنے لگا۔کیونکہ میری ماں دوسروں کے گھروں میں کام کرتی ہیں۔اس کے کپڑے ضعیف ہو چکی ہیں۔اس کے پاس پہننے کے لئے کپڑے نہیں ہیں میں اپنے ماں کے لئے کپڑوں کی دکان سے ایک جور کپڑے خریدیں۔ابھی چپ سکول سے واپس جاؤں گا پھر میں درزی کو دے دوں گا۔اس طرح روزانہ تھوڑی تھوڑی پیسے دے گا جب پیسے پوری ہو جائے گی تو میں پھر اس سے امی کو وہ کپڑے بھی دوں گا۔میں اور استادی بعد سن کر رونے لگ گئے کہ یہ معصوم اور کتنی دکھی کھاے گا لوگوں سے منڈی میں۔اور کتنے ننھی دکانیں لگانے پڑے گی۔