بیچاری عورت


    • لڑکی کا باب لڑکی کی شادی کراتا ہے۔اور یہ اپنے خاندان میں کسی سے پوچھتا نہیں کہ میں اپنی بیٹی کی شادی وہاں کرنا چاہتا ہوں۔کیونکہ یہ بہت لالچ میں ہوتا ہے اسکا یہ سوچ ہوتا ہے کے خاندان والے مجھے سے جل جائے۔ تو یہ اپنی بیٹی کی شادی کرتا ہے۔اپنے خاندان میں کسی سے بھی نہیں پوچھتا کہ کیا یہ میں جو کر رہا ہوں یہ ٹھیک ہے کہ نہیں۔یہ لالچ میں ہوتا ہے کیونکہ لڑکے کے گھر والے بہت مالدار ہوتے ہیں۔لڑکی کے گھر والے مالدار تو نہیں ہوتے ہیں پرگزارا چل جاتا ہے ان کا۔
      لڑکی گھبرائیں ہوگئی ہوتی ہیں اس کو خوف آتا ہے
      اندیشہ ہوتا ہے کہ میں اپنے امی ابو سے کیسے دور رہ لو گی۔ اور لڑکی کو اجازت نہیں ہے انکار کرنے کی اگر وہ لڑکی انکار کریں گی تو اس کو گھر والے گھر سے نکال دے گے۔تو اسی میں اس لڑکی کی شادی ہوجاتی ہے اس خاندان میں جو کہ بہت مالدار خاندان ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ وہ بہت سخت خاندان بھی ہیں۔اس خاندان میں عورتوں کو بہت ذلیل کیے جاتے ہیں۔شادی کے بعد تقریبا دو سال بعد اس عورت کی ایک بیٹی پیدا ہوجاتی ہیں۔تقریبا دو مہینون کے بعد جب اس کی بیٹی پیدا ہوئی ہوتی ہے تو بیوی اور شوہر کے درمیان تعلقات شدید خراب ہو جاتے ہیں حدتک کے طلاق تک بات آجاتی ہیں اس کی وجہ بیٹی ہوتی ہے کہ بیٹی کیوں پیدا ہوئی۔
      یہ عورت وہاں سے جاکر اپنے گھر جاتی ہیں گھر میں پوری کہانی سنا دیتی ہے اپنے امی ابو کو۔۔۔باپ اپنی بیٹی کو کہتا ہے چلو خیر ہے آپ دو دن یہاں رکھوں میں اس سے بات کرتے ہوں۔ تو اس طرح باب اپنی بیٹی کو واپس گھر بھیج دیتے ہیں۔گھر واپس آجاتی ہیں لیکن گھر والے اس کی عزت نہیں کرتی۔کیونکہ یہ دوسرے فیملی کے ہیں۔اس کو گھر یہی تانے دیتے ہیں کہا آپ نے شادی پیسوں کی لالچ میں کی ہے پھر کچھ سالوں بعد اس عورت کی پانچ بچے ہوتے ہیں۔اس میں تین لڑکیاں اور دو لڑکے ہوتے ہیں ان سب کے ساتھ بہت زیادتی ہوتی رہتی ہیں۔ان زیادتیوں میں کچھ یہ ہیں۔ان بچوں کا جو باب ہے وہ ایک سیخ گرم کرتا ہے اپنے بچوں کے پاون پر گرم سیخ رکھتا ہے بچے اونچی اونچی آوازوں میں رونے لگ جاتے ہیں وہ اسے اس کی ماں کچھ نہیں کر سکتی صرف دیکھتے رہتے ہیں۔کبھی کبھار بچوں کو کمرے میں بند کیے جاتے ہیں اس طرح وہ اپنی بیوی کے ساتھ بھی کرتا ہے۔ تو اس طرح لڑکی کے ساتھ گھر میں ہر کوئی سختی سے پیش آتے ہیں اس کی ساس بہت سخت ہوتی ہیں بہت تیز زبان چلاتی ہیں جب عورت کپڑے صاف کرنے جاتی ہے تو اس کو سبون وغیرہ نہیں دیتی۔کھانے کے لئے روٹی نہیں دیتی۔گھر والوں کو پتہ ہوتا ہے کہ بہت سخت حالت میں ہیں ۔بہت ذلیل ہونے کے بعد اس عورت  کا پتہ چل جاتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا کیا ہوا ہے اور انکے گھر والے کے بھی چھپانے کی کوشش کرتا ہے کے ہمارے خاندان والوں کو پتہ نہ چلے لیکن خاندان والوں کو ان سب چیزوں کے بارے میں پتہ ہوتا ہے وہ سب خاموش ہوتے ہیں۔
      آخر محتاج ہو جاتا ہے خاندان والوں سے بات کرتا ہے
      کہ میں کیا کروں میری بیٹی کا گھر تباہ ہوگیا۔میرے بیٹی پانچ بچوں کے ساتھ میرے گھر آئے ہیں اس نے بہت تکلیف ہی دیکھی ہیں آپ لوگ بتاؤ کیا کرو۔توخاندان والے اسے یہ کہتے ہیں کے ہمیں بہت افسوس ہوا کہ آپکی بیٹی کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا ہے۔لیکن جب آپ شادی کر رہے تھے اپنی بیٹی کی تو آپ نے ہم سے نہیں پوچھا تھا۔جب اب بات بگڑ گئی ہے اب آپ کہہ رہے ہو کہ میں کیا کروں۔
      یہ عورت باپ کے گھر میں بہت زیادہ کام کرتی ہے نوکرانی جیسی لیکن اس کے باپ کو اس کے بچے پسند نہیں ہوتے بچوں کو بھی کام دیتے ہیں گھر میں کفت میں روٹی نہیں ملیں گے بچھ پ پورا دن کام کرتے ہیں ۔جو اس عورت کے بچے ہیں وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ اپنے باپ کے بچے ہیں یہ بھی اپنے باپ کی طرح حرکتیں کرتے ہیں۔یہ بھی بہت نہیں مانتے یہ بھی تو بہت سخت ہیں اس کی طرح۔اس طرح تین بیٹیوں ایک بیٹا اس کو گھر سے واپس بھیج دیتے ہیں اپنےباپ کے گھر۔اس طرح یہ جب بچے گھر کے اندر ہوتی ہی۔بچوں کا تایا ابو گھر کے برآمدے میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔تایا کے ہاتھ میں پستول ہوتا ہے۔جب یہ تین  بیٹیاں اور بیٹا گھر اندر ہوتی ہیں ان اوپر فائرنگ کرتا ہے ان کی تایا ۔تین بیٹیوں تو فوت ہو جاتی ہیں بیٹا بچ جاتا ہے۔بیٹا وہاں سے بھاگ بھاگ کے گاڈی سٹیشن آجاتا ہے وہاں سے گاڑی میں واپس امی کے ابو کے آجاتا ہے تایا نے کیوں ان بچوں کو قتل کیا۔کیونکہ جو بڑی بیٹی تھی اس نے اپنے ابو کو جیل میں کیا تھا اس کے ابو نے اس بڑی بیٹی پر بہت غلط الزام لگایا تھا یہی وجہ تھی کہ ان معصوم بچوں کو ختم کردیا۔ اب دو بچے اور اس کی ماں ایک ساتھ رہتی ہیں۔۔باپ نے اپنی بیٹی سے بھی نفرت شروع کی وہ بچاری ایک زیب سی کمرے میں رہتی ہے۔حالانکہ اس کے چار بائیں اور بھی ہیں لیکن وہ بھی باپ جیسے رویہ اختیار کر رہے ہیں اپنی بہن کے ساتھ۔ اب وہی خاندان والے اس عورت کی مدد کرتے ہیں۔خوراک کپڑے وغیرہ وغیرہ دیتے ہیں اب دو بیٹوں میں سے ایک بیٹھا تو بڑا ہے دس سال کا تقریبا ہے  اب وہ سکول میں پڑتا ہے۔ان کی تعلیم کی اخراجات خاندان والے اٹھا رہے ہیں۔