ٹیکنالوجی ہمارے لیے فائدہ مند یا نقصان دے 


  • کہا جا رہا ہے کہ  انڑرنیٹ کپیوٹر ،ٹی وی اور موبائل فون کہ یہ ہمارے وقت بچانے کے لئے ایجاد ہوئے ہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ انفارمیشن حاصل کرنے کے لئے سب سے آسان طریقہ ہے۔اور اس طرح ہر طرح کی خبر اور ہر طرح کی معلومات آپ حاصل کرسکتے ہیں ایک ہی سیکنڈ میں۔کوئی بھی پڑھنے کے متعلق چیز اس ٹیکنالوجی کے میری کوئی بھی چیز آپ کو چاہے ۔تو آپ لوگ بغیر وقت ضائع کرتی ہوئے مطلب باآسانی اس چیز کو کم وقت میں حاصل کر سکتے ہیں۔ایسی کوئی بھی چیز نہیں جس کے صرف فائدے ہوں یا صرف نقصان ہر چیز کی فائدے اور نقصانات ہوتے ہیں۔یہ تو ہم لوگوں پر رہے کہ ہم اس کو کس طرح استعمال کر رہے ہیں غلط استعمال کر رہے ہیں یا صحیح۔ مگر جہاں ان ٹیکنالوجی کی فائدے ہیں وہاں ان کے نقصانات بھی بہت ہے۔اس میں ٹیکنالوجی کی کوئی غلطی نہیں غلطی تو ہماری ہے کہ ہم لوگ اس کو کس طرح یوز کر رہے ہیں پوزیٹیو یا نیگیٹیو۔اگر کوئی ٹیکنالوجی کو اپنی پڑھائی کے لئے یا اپنے ضرورت کو پورا کرنے کے لئے یوز کریں کچھ وقت کے لئے تو میرے خیال سے تو ان کو کوئی نقصان نہیں ہوں۔ اگر اپنی پڑھائی چھوڑ کر اسں ٹیکنالوجی کے پیچھے لگ گیا ہے ٹیکنالوجی کا غلام بن جائے اس میں ایڈلٹ چیزیں ایٹیسی دیکھنا شروع کریں تو وہ بہت نقصان ہوتا رہا ہوں۔اور اس کے ساتھ وہ اپنے دین تباہ کر رہا ہے اور دنیا بھی تباہ کر رہا ہے۔اللہ تعالی نے ہر انسان مسلم ہر شخص کو شعور دیا ہے۔بلکہ ہر انسان کو شعور دیا ہے علم دیا ہے۔کیا آپ کے لئے برا کیا ہے اچھا کیا ہے انہوں نے نے قرآن پاک اور حدیث میں وضاحت کی گئی ہر ایک چیز کا۔اس طرح ہمارا آج کل کے نوجوان نسل میں اپنی والدین یعنی ماں باپ کو دھوکے میں رکھا ہوا ہے حالانکہ دو کہ کسی اور کا نہیں ہوتا بلکہ یہ دھوکہ اسی کا ہوتا ہے مطلب یہ خود کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے۔بچے تو بہت معصوم ہوتے ہیں. ہمارے والدین بھی اپنے بچوں کو ویڈیو گیمز دے دیتے ہیں ۔اور اس طرح کمپیوٹر موبائل ٹیلی ویژن لیپ ٹاپ جیسے کے سہولت
    اپنے بچوں کو دیتے ہیں۔اس دلدل میں اپنے بچوں کو ڈالتے ہیں اس چھوٹی سی عمر میں کیا یہ ٹھیک  ہے نہیں اس طرح بچوں میں تمیز نہیں رہتی بڑوں کے لے اور نہ بات کرنے کا طریقہ دوسری بات تو یہ ہے کہ یہ بچے پیر ویڈیو گیم کھیلتے رہیں گے گھر کے اندر باہر جاننے ہم کو اچھا نہیں لگتا جو کے باہر آؤٹ ڈور گیم کھیلنا صحت کے لئے بہت مفید ہے پر نہیں۔۔اور پھر ہی ہے کہ اس سے نکلنا بہت مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے بچوں نے وہ بچپنا ختم ہوجاتا ہے ماسومیت ختم ہو جاتی ہے۔اس طرح بچے اپنی پڑھائی سے زیادہ سے زیادہ وقت ان کمپیوٹر موبائل انٹرنیٹ کو دے دیتے ہیں۔اس طرح علم کی دنیا سے بھی دور ہوتے جاتے ہیں چونکہ موبائل میں ہر قسم کے گیمز بھی ہوتے ہیں تو وہ آؤٹ ڈور گیم کھیلنا پسند نہیں کرتے تھے پھر۔ جن سے ان کو بہت نقصان ہوتا ہے۔نظم میرے والدین سے یہ درخواست ہے کہ وہ اپنی بچوں سے یہ سب چیزیں لے لے۔جب وہ بچے سمجھدار ہو جائے اچھائی اور برائی میں فرق کریں کہا جو چاہے وہ کیا ہے پھر ان بچوں کو یہ چیزیں دے لیکن کچھ خاص ٹائم کے لئے زیادہ یوز نہ کریں۔مگر والدین کو اپنے بچوں کے اپھر سخت اور شک ہرگز نہ کرے۔ کیونکہ یہ ایک ایسی  بماری ہے جس کی وجہ سے انسان کی سکون ختم ہو جاتی ہے۔اگر حد سے زیادہ  سختی کیا جائے اور شک کیا جاےُ۔
    تو اس بچے کے اپھر برا  اسر پڑتا ہے پھر وہ بچے ڈیپریشن کا شکار ہو جائے گا۔ ڈپریشن کا شکار ہونے سے وہ نہ تو پڑھائی اچھی طرح کرے گا۔اور اس طرح وہ ہر پریشانی میں مبتلا ہو گا وہ کوئی بھی کام اچھے طریقے سے نہیں کرے گا چاہے وہ کام ان کو کتنا ہی کیوں پسند نہ ہو۔اس کے دل پر بہت موج ہوگا۔ اور وہ ہمیشہ اپنے بارے میں غلط سوچنا گا۔سچ تو یہ ہے کہ وہ خودکشی کرنے کا بھی سوچے گا ۔۔بہرحال میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ والدین ہر چیز کے لئے وقت مقرر کریں اپنے بچوں کا۔ اپنے بچوں کو پانچ وقت کی نمازی بنائیں۔والدین کو چاہیئے کہ وہ اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلم بھی دے ۔اپنے بچوں کے تعریف کیلئے بھی وقت دے تاکہ بچہ خوش ہو جائیں اور اس طرح والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں میں فرق نہ کریں ہمیشہ اپنے بچوں کو ایک نظر سے دیکھے چاہے وہ لڑکی ہے یا لڑکا ہے۔کیونکہ اسلام بھی ہمیں حکم دیتے ہیں  برابری کا۔اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کی صبر سے کام لو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔اور اس طرح ہمارا دین اسلام ہیں ۔اور ہم سب کو چاہیے ہے ہم سب پانچ وقت نماز کی پابندی کرے۔ حلال کمائی اور حلال کھاے اور اس طرح اپنے بچوں کو حلال کھلے غریبوں کی مدد کرے اور اپنی زندگی قرآن اور حدیث کے مطابق گزارے. تاکہ ہم دونوں جہانوں میں کامیاب ہو.

0 comments