ادب کا تقاضا

  • تقریبا آج سے دس بارہ سال پہلے اگر ہم دیکھیں. کہ کے لوگ کتنے ادب کرتے تھے ایک دوسرے کے خاص کر بڑوں کی بہت ادب کرتے تھے بچے۔اس طرح لوگوں میں شرم و حیا موجود تھی۔لیکن بدقسمتی سے آج کے اس دور میں ہم لوگ وہ نہیں رہے ہم لوگوں میں وہ پردہ نہیں رہا۔ ہم لوگوں میں وہ ادب اب نہیں رہا نہ وہ شرم و حیا رہا, اب ہم لوگوں میں وہ شرم حیا موجود ہی نہیں ہیں۔ان چیزوں کو ہم لوگ کیا محسوس ہی نہیں کرتے یا ان چیزوں کو ہم لوگوں نظرانداز کرنا شروع کیا ہے محسوس کرنا چھوڑ دیا ہم لوگوں نے....! تو یہ بات ذہن نشین کر ے۔کہ اس کا بہت نقصان ہم ہی لوگوں اٹھائیں گے۔اس میں سارا کے سارا نقصان ہمارا ہی ہے جس نقصان کا ہم لوگ سوچ بھی نہیں سکتے ہیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ہم لوگوں کو بہت شرمندگی کا سامنا کرنا ہوگا۔پہلے دور میں جوان بچے بڑوں کے سامنے غلط کام کر کے اس پر بہت شرمندہ محسوس ہوا کرتے تھے۔ ان بچوں میں شرم تھی حیات ہیں بلکہ ادب تھی اور اس کے ساتھ پیار اور محبت تھی بڑوں کیلئے اپنے پیاروں کے لیے وہ لوگ بہت پیار کرتے تھے اپنے بڑوں سے۔ لیکن افسوس آج  آج کے نوجوان نسل کو یہ سب چیزیں نظر نہیں آتی ہے۔نہیں...! یہ میرا دل مجھے سے کہتا ہے آپ لوگوں اپنے آپ سے پوچھے. آپ لوگوں کو خود پتہ چل جائے گا۔ کہ آپ کو کیا جواب ملے گا۔ امید ہے کہ آپ کا جواب بھی نفی میں ہی ہو گا۔کتنی خوش قسمت اور خوشنصیب ہے وہ لوگ جو اپنے والدین کی عزت کرتے ہیں اپنی والدین کے ادب و احترام کرتے ہیں اور اپنے والدین سے پیار محبت کرتے ہیں۔اور اس طرح ایک دوسرے سے شرم و حیا کرتے ہیں اور ہر کسی کو اچھی بات کرنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ اور صرف نصیحت نہیں بلکہ خود بھی ان  اچھی باتوں پر عمل کرتا ہوں یہی اصل جیت ہے۔ کیونکہ اچھی باتیں تو دیواروں پر بھی لکھی ہوئی ہیں۔اصل بات تو یہ ہوتا ہے کہ جب آپ خود بھی اس پر عمل کرتے ہو اور دوسروں کو بھی اور اس پر عمل کرنے کی تاکید کرتے ہو۔ صرف یہ بات تو نھیں کہ چھوٹے صرف بڑوں کی عزت کرتے رہے بلکہ بڑوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے چھوٹوں کا ادب اور احترام کریں ان کی پسنددیدگی کا احترام کرے کا خیال رکھیں جب ہم پسند اور ناپسند کا خیال رکھتے ہیں تب بھی وہ بچے پھر بڑوں سے پیار محبت  اور عزت کرنا شروع کرتے ہیں۔اور بڑوں سے پھر پیار سے پیش آتے ہیں۔ لیکن آج کل کے دور میں اگر کوئی بڑا کسی بچے کو کسی بھی غلط کام کی اوپر ڈانٹے تو آپ لوگ پھر خود سمجھ دار ہیں کہ کہ بچہ غلط آوازیں شروع کردی ہیں. اس طرح وہ بچہ پھر غلط الزام لگائے گا۔کہ اس نے مجھے فضول میں ڈانٹا میں نے یہ کام تو نہیں کیا تھا۔شیخ سید رحمت اللہ نے فرمایا ہے کہ جو بھی شخص اپنی بچپن میں بڑوں کی عزت و احترام کرنا نہیں سیکھا جائے تو وہ جتنا بھی بڑا ہو جائے تو اس سے بھلائی کی کوئی امید نہ رکھنا۔۔۔اس طرح ادب کا تقاضا تو یہ ہے کہ اگر ہم ابھی پڑھ رہے ہیں کسی بھی جماعت میں تو ہم سب کو چاہیے کہ ہم لوگ اپنی استاد کی عزت کریں ان سے ادب سے پیش آئیں میں بہت سے بچوں کو دیکھ چکا ہوں اب تک کہ وہ اپنے استاد کی عزت نہیں کرتے ان کے پیچھے برا بھلا کہتے ہیں۔ اور اپنے استادوں کی مذاق اڑاتے ہیں۔  بہت افسوس کی بات ہےکہ جو استادہ میں ذراسا شریف لگتا ہے تو اس کو ہم لوگ کچھ نہیں کہتے ہیں کیونکہ وہ ہمیں بہت پیار کرتے ہیں غلط کام سے روکتا ہے پر ہم لوگ کہتے ہیں نہیں ہی ہمیں کچھ نہیں کہے گا۔ ہم اس سے بھی برا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔اور جو استاد ہمارے ساتھ ذرا سرسختی کر لے پھر ہم لوگ ان کی عزت نہیں کرتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں۔ اور اس طرح اپنے والدین کی ادب و عزت کرے۔کہتے ہیں نا کہ جو کرو گے وہی تمہارے ساتھ ہو گا اس طرح اگر ہم آج اپنے بڑوں کی عزت و احترام نہیں کرتے توکل کو ہم نے بھی بڑا ہونا ہے تو پھر سب آپ کے سامنے ہیں کہ پھر بچے آپ کی بھی ادب نہیں کریں گے۔میرا آپ تمام لوگوں سے التجا ہے کہ دو دن کی زندگی ہے ان کو اچھے طریقے سے گزاری پیار محبت سے گزارے اپنے والدین کی قدر کیجئے اپنے والدین کی عزت کیجئے یہی اس دنیا کا اور آخرت کو جیت ہے..