پیما نہ

  •                                                                                                                                                                              

        پیمانہ                                                                11مارچ سموار کا دن ا.میں صبح یونیو رسٹی کے لیےنکلی تو کافی با رش ہو رہی تھی.روڈ پوری  طرح سے پانئ سے بھر چکے تھے۔کافی دیر ٖھو چکی تھی.اور بارش سےکا فی رش تھا۔اسی دوران میری نظر پڑی تو میں نے محسوس کیا کےسب کے سب قوانین کے مطا بق اور ایک گا ڑی سے  سرسری سا  یونیفارم کے بازو پر پاکستانی پرچم نظرآیا.جو کے پولیس کی وردی لگی.وہ گاڑی سب کی طرح گزر گئ لیکن ایک سوال میرے دماغ میں باقی رہ گیا.اسی اثنا میں گاڑی سٹاپ پر رکی.بارش ھلکی ھلکی جاری تھی .آسمان سےبارش کے قطرے موتیوں کی مانند ساری فضا کو گرویدہ کر رہے تھے،اور نیچےگرتے ٹپ ٹپ قطرےجیسےکو ئی خوبصورت موسیقی کی دھن سازندہ بڑی مہارت سے بجا رہا ہو.ج اور ہر چیز محورقص ہو.یہ بارشیں بھی نہ کبھی کبھی صرف گرد سے آٹے پتے ہی نہیں دھو رہی ہوتی بلکہ ہمارے اند ر کو بھی پوری طرح جل تھل کر دیتی ہیں.جیسے اپنے ہو نے کا احسا س دلا رہی ہو تی ہیں.اسی طرح کبھی کبھی کچھ چیزیں جو بہت چھو ٹی لگ رہی ہوتی ہیں.شائد ہم  دیکھ کہ بھی نظر اند ز کر د یتے ہیں.لیکن ہما رے اند ر ا یک بہت گہرا سوال چھو ڑ جاتی ہیں.یہ کا فی حد تک ممکن ہے کے کچھ لوگوں کو اس بات سے اختلاف ہوکے کیسے چھو ٹی سی نظر ا ندز کی جا نے والی چیز یں ہما رے لیے کیسےسوال چھو ڑسکتی ہے.مسئلہ یہ ہے کچھ لوگ ان سوالوں کو ا پنے ا ندر سننے کی کو شش ہی نہیں کرتےاور بھا گتے رہتے ہیں   اپنے اندر کی آواز سے اور اس جب ہم اپنے ا ندر پید ا ہونے والے سوالوں کوخود ہی نہیٰں سنتے تو وہ جمع ہوتے رہتے ہیں.اور پھر ا نک پلندہ ا تنا بھا ری ہو جا تا کہ ہم الجھنوں کا شکار ہو جا تے ہیں.ا س وقت اس طرح کا سوال میرے دماغ میں چل رہا تھا.کہ اکثر ہم انسانوں کے عمل یا رویوں سے ان  کوخود ہی اچھا یا برا کہنے کا پیما نہ بنا لیتے ہیں.کیا صحیح ہوتا ہے.جیسا کاعمو ما   ہما ری راےاپنی پو لیس کے بارےکچھ اچھی نہیں رہی لیکن وہا ں تو میں نے ا یک پولیس مین کو سب کے ساتھ قوانین کی پا بندی کر تے د یکھا  جبکہ وہ ا یسی جگہ کہ اگر پا پند ی نہ بھی کر تا تو شائد چا لان بھی نہ ہو تا.لیکن سبھی لوگ ٹر یفک کے قوانین کی پا بندی کر ر ہے تھے اس وقت مجھے ا پنی قوم بہت مہذب لگی.اور اس بات نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کے ہما رے دوسروں کو جانچنے کے پیمانے غلط بھی تو ہو سکتے ہیں.ہم بھی تو انسان ہیں اور بنیا دی طور  پرتو انسان نیک فطرت پر پیدا ہواہے .کبھی کبھی برا اسلیے بھی بن جا تا ہے کہ اس ا چھاکرنے کا موقع ہی نہیں مل رہا ہو تا  یا پھر وقت اور حالات اسے برا بننے پر مجبور کر دیتے ہیں.اس دوران اگر وہ برا کر بھی رہا ہو تو وہ ا چھی سو چ کا عنصراسکے اندر موجود رہتا ہے.جو اسکے ضمیر کی آواز کی صورت اسے ملا مت کر تا رہتا ہے.اور انسان کوخود کومحسوس ہو رہا ہوتا ہے .کہ وہ  غلطی پر ہے لیکن کبھی وقت کے تقا ضوں کو    دیکھتے ہوئےاور کبھی اکڑ میں نظرانداز کر دیتا ہے پھر نہ سوال پیدا  ہو اور نہ جواب کی جستجو اور اس مسلسل اندر کی آواز کو نظر اندز کرنے سے وہاں پہنچ جاتے ہیں جہاں ہمیں  غلط اور صحیح  میں فرق ہی نہیں لگتا بلکہ ہمیں ہر وہ چیز ٹیھک لگ رہی ہوتی ہے غلط ،ٹھیک کا پیما نہ ہم ا پنی ڈکشنری سے نکال چکےہو تے ہیں.پھر ہمیں کسی مظلوم کی آہیں کسی بے زبان کے آنسو دکھا ئی  نہیں دیتے. تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ جو لوگ ہمیں برا کہ ر ہے ہو تے ہیں.ان کا قصور ہے کہ ہمارے اندر کے اچھی فطرت کو دیکھ نہیں پا رہے ہو تے...یا ہماری جبکہ اچھی سوچ کو تو ہم نے ہی ا ندر دبا کر عمل سے دور کررکھا ہوتا ہے.لیکن سوال یہ بھی ہے ا گر ہم یوں کہیں  تو کیا صحیح  ہو گا.برابر ہیں سب انسان سب کی نیکی بدی کا معیار ایک تو پھر ایک دوسرے کو جا نچنا کیوں...؟  ایک دوسرے کےلے سزا و جزا کے فیصلے کیوں...؟ اصل ہم انسان خود ہی ا یک دوسرے کی اچھی فطرت کو باہر نہیں آنے د یتے..جیسے کسی کو ظالم بھی ہم خود بنا تے ہیں.وہ ایسے کہ جب کسی کی خا مو شی یا معاف کرنے کی صفت اسکی بزدلی قرار دیں تو ا یک طرح سے ہم اسے ابھار رہے ہوتے ہیں  تو ایسے لو گو ں کا جب ظبط ٹوٹا ہے تو لاوے کی طرح پھٹتے ہیں.کیونکہ یہ پانی کی طرح نرم ہو تے ہیں   جو ٹھہرہوا تو بہت پر سکو ن ہو تا ہےبہت خامو    ش  لیکن جب یہ نرم،شفاف، پر سکون ٹھہرا    ہوا خا موش پا نی  طو فا ن بنتا ہے نہ تو نہ صرف ریت پتھر بلکہ سخت پتھریلے غرور اور اکڑسے ایک جگہ مقید پہاڑ بھی ریت کےذروں کی ما نند بہا کے لے جا تا ہےانسا ن کی مثا ل بھی ا یسی ہی ہے جب ہم شفاف پا نی کی ما نند ٹھہرے ہو ئے ا نسان کو طو فا ن بننے پر ا بھا رتے ہیں۔تو اس طو فان کی نظر وہ کناروں پہ معصوم ذرے بھی ہو جا تے ہیں جن کو نہ تو و جہ طو فا ن کی خبر اور نہ ہی سنبھلے کی فر صت۔تو اس سب میں قصور کس کاہے..؟ کس کی غلطی   ان معصوم ذروں کی  ا س طو فا ن کی  یا پھر اس ہوا کی جو پا نی کی لہر وں پہ طوفان کا سبب بنی۔ بہت گہرا لیکن سچا سوال ہے ۔ مسئلہ یہ کہ ہم میں سے ا کثر ایسی گہری سچا ئیوں سے گھبراتے ہیں.کیو نکہ یہ ہمیں ا ندر تک جھنجو ڑ دیتی ہیں .یہ کہیں نہ کہیں ہمیں ہمارے ا صل سے ملا دیتی ہیں .ہمارے اندر کے اچھے ا نسان سے جس میں احساس بھی ہے ،پیار بھی ،سچا ئی بھی ،خلو ص بھی تو ہم ان سوالوں کا سا منا کرتے کتراتے ہیں۔ کیونکہ ہم اپنے اندر کے اچھے ا نسان اپنے اندر کی آواز کو دبا چکے ہو تے ہیں کبھی حالات کے پیش نظر،کبھی اپنی ہی پیدا کی ہو ئی بے معا نی مجبوریوں کے تحت اور کبھی لو گوں کی وجہ سے  ، وہ  بھی ان لو گوں کی وجہ سے جو جا نچنے کا پیما نہ ہا تھ میں لیے بیٹھے ہو تے ہیں جیسے اعمال کا حساب ا نہوں نے کر نا ہو۔لیکن درحقیقت اللہ نے سب ا نسانوں کو اچھی فطرت پہ پیدا کیا ہے ۔ اور سب برابر ہیں نہ تو کسی کو کچھ بے معنی وجو ہا ت  کی  خا طر اپنے اندر کی اچھائی کو دبا نا چا ہیے ۔اور دو سری طرف نہ ہی کسی کو دو سروں کو جا نچنے کا حق ہے ۔   کیونکہ اچھا ئی یا برائی  غلط یا صحیح  کو جا نچنے کا پیما نہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔                                                                                                                                                                                                                                                                                     

                                                                                                           

0 comments