انسانیت

  • انسانیت ایک ایسا جزبہ ہے جو انسان کو انسان سے وابستہ رکھتا ہے،جب یہ جذبہ ختم ہوجائے تو قوم اور سلطنت بربادی کی نذر ہوجاتی ہیں۔آج کل ہمارے  معاشرے میں انسانیت دم توڑ رہی ہیں،انسانیت کا سسکیوں میں جنازہ اٹھ رہا ہے۔پرانے زمانے میں اگر قتل ہوتا تھا تو ہمارے دل روتا تھا دکھ کے مارے آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام نہیں لیتی تھی ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کے لئے دل ہمیشہ دکھتا تھا آنکھیں ہر وقت نم رہتی تھی۔آج کل کے زمانے میں خون کی نہریں بہ رہی ہیں،ہمارے اندر انسانیت دم توڑ رہی ہے،انسانیت اپنے اندر بنائے رکھنے کے لئے ہمیں پہلے ایک اچھا انسان بننا چاہیے ہر چیز کا اگر احساس ہمیں ہو توہم ایک اچھا انسان بن سکتے ہیں۔انسانیت کا تقاضا یہ ہے کی کسی کو تکلیف میں دیکھ کر اپنی تکلیف کو بھلا دینا،کس ضعیف کو راستہ دکھانا،ضرورت مند کی مدد کرنا،لیکن نہیں ہم اس چیز کے بالکل برعکس ہیں ہم اپنی ذات میں ضرورت مندوں کو بھول جاتے ہیں،کسی کو تکلیف میں دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں کسی سے ہی اس کو راستہ دکھانے کی بجائے خود راستہ پلٹ لیتے ہیں ہم میں تھوڑی سی بھی انسانیت باقی نہیں رہی ہے۔ انسان ہوناہمارا انتخاب نہیں قدرت کی عطا ہے لیکن اپنی اندر انسانیت بنائے رکھنا ہمارا انتخاب ہے۔ بہرحال انسان تو ہر گھر میں پیدا ہوتے ہیں لیکن انسانیت کہیں کہیں جنم لیتی ہیں۔ آج کل کہیں لوگ انسانیت بھول چکے ہیں،جو کرنے میں ان کو خوشی ملتی ہے وہ لوگ وہ کرتے ہیں۔ کوئی کسی کے بارے میں نہیں سوچتا۔ ہمارے گھروں میں انسانیت باقی نہیں رہی ہم باہر کسی کی کیا مدد کریں، ہمارے گھروں کے اندر ہی لوگ ایک دوسرے کے خلاف ہیں کوئی کسی کے بارے میں نہیں سوچتا،ہر کوئی اپنا اچھا سوچتا ہے،اس وجہ سے گھروں میں نا اتفاقی پیدا ہوجاتی ہے۔بھائی بھائی کا دشمن بن گیا یے۔ انسانیت اپنے اندر پیدا کرنا بہت زیادہ مشکل ہے۔انسانیت اگر ہمارے اندر ہوتی تو کوئی بھی بھائی اپنے بھائی کا دشمن نہیں ہوتا،کوئی بھی معذور خود کو اکیلا نہیں سمجھتا،غریب غربت سے نہیں مرتا اور یتیم بچہ خود کو کبھی بھی یتیم نہیں سمجھتا۔یہ ہماری کمزوری ہے کی ہم نے اپنے اندر انسانیت کو ختم کیا ہے۔انسانیت ہمارے اندر جنم لینے سے قاصر ہے۔ہم لوگ انسان تو بن گئے لیکن انسانیت اپنے اندر نہیں لا پائے یہ ہماری سب سے بڑی کمزوری اور بدبختی ہے۔آج کل انسان کسی حال میں خوش نہیں،چاہے کسی کے پاس زیادہ پیسہ ہو یا کچھ بھی نہیں۔ اگر کسی انسان کے اندر احساس ہوں تو اس کے اندر انسانیت خود بخود پیدا ہوتی ہے۔کسی غریب کے دکھ کا احساس کرنا،کسی ضرورت مند کی ضرورتوں کا احساس کرنا،معذوروں کی معذوری کا احساس کرنا،بوڑھے کی بڑھاپے کا احساس کرنا،کوئی زخمی ہے تو اس کے درد کو احساس کرنا اور اگر کوئی مزدور ہے تو اس کے کام کو احساس کرنا کہ وہ کتنا کام کرتا ہے،ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کو احساس کرنا،یہ ہوتی ہے انسانیت۔ احساس اگر اپنے اندر پیدا کرو گے تو آپ ایک اچھا انسان کہلاو گے اور انسانیت خود بخود آپ کے اندر آئے گی۔ حضرت علی سے پوچھا گیا کہ: کیسے پتہ چلتا ہے کہ کون کتنا قیمتی ہے فرمایا؛جس انسان می جتنا زیادہ احساس ہوں،وہ اتنا ہی زیادہ قیمتی ہے۔ ہمارے پیغمبر جو گزرے ہیں انمی احساس، سچائی،رحمدلی،نیکی،معافیی،بچوں سے پیار کرنا،بزرگوں کی مدد کرنا،اندھے کو راستہ دکھانا اور بہت سی ساری نیکیاں اور سب سے بڑھ کر انسانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ہمارے پیغمبروں نے ہمیں بھی ان چیزوں کی تعلیم دی ہیں پھر بھی ہم اپنے پیغمبروں کی بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چلتے ہیں یہ ہماری سب سے بڑی بد بختی ہے۔ ہم سب کچھ بھول کے بیٹھے ہوئے ہیں بس اپنے میں ہی مگن ہے،کوئی کسی کا نہیں سوچتا،ہر کوئی مطلب کے لئے بات کرتا ہے انسانیت ہماری اندر ختم ہوئی ہے۔اگر ہماری اندر انسانیت ہوتی ہے تو بہت کچھ بدل جاتا۔ہمارے گھر بدل جاتے ہیں،ہمارا گاؤں بدل جاتا اور سب سے بڑھ کر ہمارا ملک بدل جاتا۔انسانیت کو اپنے اندر قائم کرنا بہت زیادہ مشکل ہے۔آخر میں میرا ایک مشورہ ہے آپ سب کے لئے کہ آپ اپنے اندر احساس پیدا کرو اگر آپ کے اندر احساس ہوں تو انسانیت خود بخود آپ کے اندر آجائے گی،تب دیکھنا کہ ہمارا ملک کیسے بدل جاتا ہے،کسی گھر میں کوئی غریب نہیں ہوگا کوئی کسی کا دشمن نہیں ہوگا،کسی میں کوئی فرق نہیں ہوگا چاہے وہ جتنا بھی پیسے والا ہوں یا نہ ہو۔انسانیت سب سے بڑی چیز ہوتی ہے۔ انسانیت کو اپنے اندر ہمیشہ زندہ رکھو۔آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو توفیق دے۔آمین یا رب العالمین۔