بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی

  •        کچھ عرصہ پہلے ایک چھ سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیااور اس کی لاش کو کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیا۔  زینب قتل کیس کے بعد مختلف فارمز پر بہت احتجاج کیا گیا۔ وہیں میڈیا پر بھی بہت سے کیس سامنے آ رہے ہیں۔جہاں زینب قتل کیس میں ملزم کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔وہاں لوگوں میں بھی یہ شعور پیدا ہوا ہے کہ اب انہوں نے خاموش نہیں رہنا۔                                                                                                        

    اس واقعے کے بعد تو ملک میں جیسے کہلام ہی مچ گیا۔آئے روز بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آرہے ہیں اور ان واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔                                                         

    بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات پر قابو پانے کے لیے قانون سازی کی ضرورت پر میڈیا میں آواز بلند ہوئی۔  بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات پر قابو پانے کے لیے علی محمد خان نے عمران خان کی خواہش پر پارلیمنٹ میں ایک قرارداد پیش کی ۔اس قرارداد کا موقف یہ تھا کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مجرمان کو سرعام سزائے موت دی جائےاور اب یہ قرارداد پارلیمنٹ سے منظور ہوگئ ہے۔ لیکن کیا یہ اس مسئلے کا دیر پا حل ہے؟                                     

    بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مجرمان کو عبرتناک سزائیں نہیں دی جائیں گی تب تک جنسی زیادتی کے واقعات پر قابو نہیں پایا جاسکے گا۔میرے خیال میں اصل مسئلہ ہے قانون پر عمل درآمد کا۔اس کے علاؤہ ذمہ داری والدین پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کریں اور انہیں آگاہ کریں۔اور کسی بھی معاملے کی شکایت فوری کرنے کی حوصلہ افزائی کریں تو اس مسئلے سے نمٹنا آسان ہو سکتا ہے۔جب ہم جنسی زیادتی کے مجرمان کو عبرتناک سزائیں دیں گے تو تب ان واقعات پر کافی حد تک قابو پایا جاسکے گا اور اگر والدین اپنے بچوں کے  ساتھ گڈٹچ اور بیڈٹچ کے بارے میں بات کریں-حکومت کو ایک ایسا ادارہ بنانا چاہیے جہاں بچوں کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی تربیت دی جائے تاکہ ایسے واقعات پر قابو پایا جاسکے۔ 

0 comments