ویمن ڈے یا بےحیائ

  •  

    ٨ مارچ ٢٠١٩ كو منایا جانے والا وومن كا عالمی دن جس نے ویمن ڈے كی دجیاں ٱڑا كے ركھ دی۔ امریكہ كی سوشلسٹ پارٹی نے پہلی مرتبہ ٢٨ فروری ١٩٠٩ ميں منعقد كيا تھا اور اسكے بعد انٹرنيشنل سوشلسٹ ویمن كانفرنس ميں كہا گیا كے یمن ڈے كو ہر سال منانا چاہۓ۔ لیكن ٨ مارچ ٢٠١٩ كو پاكستان ميں جس طرح سے كچھ خواتین نے ویمن ڈے كے نام پر بے حیاٸ كو فروغ دیا وہ نا قابل برداشت تھا اگر چہ حكومت كی طرف سے اس پر كوٸ ایكشن نہيں لیا گیا اور نہ ہی سپريم كورٹ نے كنٹمٹ آف كورٹ كے زمرے میں كسی طرح كی كارواٸ كی۔ غور طلب بات یہ ہے كہ جن حواتين نے مظاہرے كيے اور جنہوں نے واحیات قسم كے پلے كارڈز ٱٹھاۓ ہوۓ تھے ٱنہوں نے بلكل بھی عورتوں كے حقوق كے بارے ميں كوٸ بات نہیں كی نہ عورتوں كی بنیادی تعلیم یا اچھی تعلیم كا مطالبہ كیا گیا  نہ ہی عورت كا وراثت ميں حصہ دار ہونے كا مطالبہ كیا گیا اور نہ ہی پاكستان ميں لڑكيوں كی كم عمری كی شادی پر روكہ تھام كی بات كی ہاں اگر بات كی گئ تو عورت كی جنسی آزادی كی بات كی گئ عورت لڑكی كا لڑكی سے شادی اور رشتے كی بات كی گئ جسكی ہمارے مذہب اسلام ميں بلكل بھی اجازت نہيں ہے لیكن اسكے علاوہ ايك اور چيز كو دكھایا گیا جو كہ انتہائ غير مناسب گھٹيہ اور بہ معنی تھی اور وہ يہ كہ نكاہ جيسے پاك عمل كو ختم كر دیا جاۓ اور دكھ كی بات يہ ہے كے ان مظاہروں ميں حنا جيلانی اور بہت سارے انسانی حقوق كے كاركن موجود تھے اور ٨ مارچ كو مظاہروں ميں شریك ايسی گندی روہوں كو آپ لبرل بھی نہيں كہ سكتے كيوں كے جس طرح كے حقوق كا مطالبات انہوں نے اپنے لۓ كيے ٱس پر خود بہت ساری خواتين نے تنكيد كی كيوكہ ان مظاہروں كا مقصد صرف ايك تھا ۔ خاندانی نظام كو تورنا اور شرم و حيا كو اسلامی معاشرے سے ختم كرنا ہے ليكن شايد يہ لوگ يہ نہيں جانتے كہ جو مطالبات اِنہوں نے اپنے ليے كيے ہيں انكا انجام كيا ہے آزادی كے نام پر جو عورتيں گھر سے بھاگ كر شادی كرتی ہيں اپنی مرزی سے ان ميں سے بہت ساری عورتوں كو بيچ ديا جاتا ہے بہت ساری ايسی ہوتی ہيں جو خود كشیاں كر ليتی ہيں اگر زندہ بچ بھی جائيں تو ايسی عورتوں كی زندگياں ٱولڑج ہوم ميں گرتی ہيں اور اسكے علاوہ بہت سی مشكلات كا سامنہ كرنا پڑتا ہے مختصر يہ كہ ساری زندگی ذلت و رسوائ ميں گزارنا پڑتی ہے

    چيف جسٹس كو يا وزير اعظم كو ايسے لوگوں كے خلاف كاروائ كرنی چاہيے تھی 

    كيونكہ تبديلی كی يہ نئ ہوائيں كسی طور پر بھی ہمارے اس اسلامی معاشرے كے ليے صحت بخش نہيں ہيں۔

    راجہ محمد اظہر

0 comments