پاکستان کی صحافت

  • پاکستان کی صحافت

    پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور اس ملک میں صحافت کو بھی آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی آزادی کے ساتھ صحافت کو جاری رکھیں۔ لیکن اس میں ایک نقطہ آتا ہے سچ کا کہ پاکستان کی سیاست پاک ہو اس میں جھوٹ نہ ہو۔ پاکستان آج سے ۱۰/۲۰ سال سے مشکل حلات کا سامنا کر رہا ہے پاکستان کے حالات ٹیک نہیں اور اس موقع پر آگر کوئی منفی صحافت کے جوہر دیکھاے گا تو یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ صحافی کا کام ہی ہے ہر خبر پر نظر رکھنا اور اُس خبر کو اُسی حالت میں لوگوں تک پہنچانا۔ لیکن پاکستان کے حالات کے ساتھ ساتھ پاکستان کی صحافت پر بھی سوال اُٹھ رہے ہیں کہ پاکستان میں اب سچ بولنے والے نہیں رہے۔ سب پیسوں کے لیے کام کرتے ہیں اور جس طرح ان کو کہا جاتا ہے وہ ویسی ہی خبر نشر کردیتے ہیں۔ جو کہ جھوٹی ہوتی ہے لوگوں میں نفرت پھیلتی ہے۔ اور معاشرہ تباہی کی طرف جاتا ہے۔ صحافی ہی پر سب کو امید ہوتی ہے کہ یہ وقعہ ہوا ہے تو یہ صحافی مشور ہے یہ ذہین ہے تو لوگوں کو اُن کی خبر دئنے کی دیر ہوتی ہے۔ اب بات جھوٹ پر مبنی ہو تو اس سے پاکستان کا ایمیج خراب ہوتا ہے جو کہ ہو رہا ہے بہت سے صحافی پاکستان کا نام بدنام کر چکے ہیں۔ صحافت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ صحافی کو سچی خبر دینی ہوتی ہے تو دشمنی زیادہ ہوجاتی ہے۔ کیونکہ کہ قدرت کا اصول ہے کہ سچ کے دشمن بہیت ہوتے ہیں۔ لیکن آگر صحافی بن گے ہیں تو کام نیک نیت سے کرنا ہوگا سچ کو سامنے لانا ہوگا۔ کہ یہ سچ ہے۔ انسان لالچی ہے پیسوں کو دیکھ کر بدل جاتا ہے اور سچ جھوٹ کو بھول جاتا ہے اس لیے پاکستان میں صحافت نام کی رھ گی ہے سب گیم پیسوں کی ہے جس کو پیسہ دیا جاتا ہے وہی آپ کا غلام ہوجاتا ہے پھر وہ آپ کی مرضی ہے مطابق کام کرتے ہیں سچ ہو یا جھوٹ وہ پھر پروا نہین کرتے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس لیے اسلامی قانون کو سامنے رکھ کر ایک صحافی کو کام کرنا چاہیے۔ لیکن صحافی اپنا کام ٹھیک سے انجام نہیں دے رہے جو کہ افسوس کی بات ہے معاشرہ تباہی کی طرف جا رہا ہے۔ پاکستان کہ نام پر ناکامی ہے دنیا کی آج کل نظریں پاکستان پر ہے پاکستان کی ہر بات کو پکڑ لیتے ہیں اور اس کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے  ہیں۔ جو کہ دنیا کی نظر میں پاکستان کو کمزور  دیکھانا چاہیتے ہیں۔ اس لیے ہم لوگوں اس پر عقل سے کام لینا ہوگا پیسوں میں کچھ نہیں رکھا پیسے لے کر دنیا میں حرام تو کما رہے ہو آخرت میں کیا ہوگا خدا کے عزاب سے بچو پاکستان اس وقت نازک حالات سے گزر رہا ہے جو کہ سب کو علم ہے اور اس وقت صحافت کا یہ رویہ برداشت سے باہر ہے۔ 

    جہاں پر بُرے لوگ ہوتے ہیں تو  وہاں پر اچھے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں پاکستان کانام روشن کرتے ہیں سچ عوام تک لاتے ہیں اور عوام کے دلوں میں گھر بنا لیتے ہیں لیکن پاکستان کی  صحافت دیکھی جائی تو معیاری نہیں۔  پاکستان کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر  پاکستان میں کوئی صحافی دل جان لگا کر حقیقت کو سامنے لاتا ہے تو پاکستان میں اس کی جگہ نہیں رہتی یعنی اس کو مار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ کہ بات ہوہی ہے کہ لوگوں کو سچ پسند نہیں اور لوگ جھوٹ کو پسند کرتے ہیں۔ کسی کے خلاف کومیڈیا پرسن بول اُٹھے تو پھر تو اس کو ڈریا جاتا ہے کہ ہماری بات مان لو اور ڈیل کر لو اور پھر بھی وہ صحافی اسن کی بات نہیں مانتا اور سچ کو جاری رکھ کر عوام تک سچ لاتا ہے تو اُس کی آواز کو ہمیشہ کہ لیے بند کر دی جاتی ہے۔ تو کہنا یہ تھا کہ انسان کہا جائے عوام سچ کی منتظر ہے اور سچ دیکھایا نہیں جاتا اور جہاں سچ کی بات ہو جائے تو اُن کو مار دیا جاتا ہے۔ وجہ اور حالات کو کون کنٹرول کرےگا حکومت ہی ایک راستہ ہے جو صحافت کو سیکیورٹی دیں اور ان کی جانیں بچائے کیونکہ کہ اس ملک میں کوئی بھی سچ بولنے والا محفوظ نہیں اور اس ملک کو بچانا ہے جو لوگ سچ کا ساتھ نہیں دیتے اور پیسے لے کر جھوٹ بولتے ہیں ان لوگوں کے خلاف بھی ایکشن ہونا چاہیے۔ کہ وہ لوگ موت سے ڈر کر اپنا ضمیر کیوں بیچ رہے ہیں۔ جھوٹ لوگوں تک کیوں پہنچا رہے ہیں یا تو صحافت چھوڑ دیں کیونکہ جھوٹے لوگوں کی ضرورت نہیں ان لوگوں کا میڈیا سے کوئی تعلق نہیں یا تو دوسرا راستہ ہے کہ سچ بول کر عوام تک سچائی کو لایا جائے زندگی موت خدا کہ ہاتھ میں ہے اس لیے سچ بول کر دنیا کہ ساتھ ساتھ خدا کو بھی خوش کیا جائے اور اپنی آخرت سنواری جائے جو کہ ہم سب کا مسلمان ہونے کہ ناطر فرض ہے۔ اس ملک کا نام بھی روشن ہو گا اور معاشرہ بھی ترقی کرے گا۔ انسان کو ہمیشہ سچ بولنا چاہیے لوگوں کہ پاس صرف میدیا کہ ہی لوگ ہوتے ہیں جن سے ہو خبر کو حاصل کرتے ہیں۔ اور اگر وہی میڈیا پرسن پیسوں کے خاطر جھوٹ کو پھیلانے لگ جائے تو معاشرہ کیاترقی کرے گا۔ اس لیے انسان کو خاص کر میڈیا پرسن کو ضرورت ہے کہ سچ کا ساتھ دیا جائے اورسچ بولا جائے کس سے عوام میں شعور آجائے اور دنیا والوں کو پاکستان کے خلاف بات کرنے کا موقع نا ملے۔پاکستان کی صحافت

    پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور اس ملک میں صحافت کو بھی آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی آزادی کے ساتھ صحافت کو جاری رکھیں۔ لیکن اس میں ایک نقطہ آتا ہے سچ کا کہ پاکستان کی سیاست پاک ہو اس میں جھوٹ نہ ہو۔ پاکستان آج سے ۱۰/۲۰ سال سے مشکل حلات کا سامنا کر رہا ہے پاکستان کے حالات ٹیک نہیں اور اس موقع پر آگر کوئی منفی صحافت کے جوہر دیکھاے گا تو یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ صحافی کا کام ہی ہے ہر خبر پر نظر رکھنا اور اُس خبر کو اُسی حالت میں لوگوں تک پہنچانا۔ لیکن پاکستان کے حالات کے ساتھ ساتھ پاکستان کی صحافت پر بھی سوال اُٹھ رہے ہیں کہ پاکستان میں اب سچ بولنے والے نہیں رہے۔ سب پیسوں کے لیے کام کرتے ہیں اور جس طرح ان کو کہا جاتا ہے وہ ویسی ہی خبر نشر کردیتے ہیں۔ جو کہ جھوٹی ہوتی ہے لوگوں میں نفرت پھیلتی ہے۔ اور معاشرہ تباہی کی طرف جاتا ہے۔ صحافی ہی پر سب کو امید ہوتی ہے کہ یہ وقعہ ہوا ہے تو یہ صحافی مشور ہے یہ ذہین ہے تو لوگوں کو اُن کی خبر دئنے کی دیر ہوتی ہے۔ اب بات جھوٹ پر مبنی ہو تو اس سے پاکستان کا ایمیج خراب ہوتا ہے جو کہ ہو رہا ہے بہت سے صحافی پاکستان کا نام بدنام کر چکے ہیں۔ صحافت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ صحافی کو سچی خبر دینی ہوتی ہے تو دشمنی زیادہ ہوجاتی ہے۔ کیونکہ کہ قدرت کا اصول ہے کہ سچ کے دشمن بہیت ہوتے ہیں۔ لیکن آگر صحافی بن گے ہیں تو کام نیک نیت سے کرنا ہوگا سچ کو سامنے لانا ہوگا۔ کہ یہ سچ ہے۔ انسان لالچی ہے پیسوں کو دیکھ کر بدل جاتا ہے اور سچ جھوٹ کو بھول جاتا ہے اس لیے پاکستان میں صحافت نام کی رھ گی ہے سب گیم پیسوں کی ہے جس کو پیسہ دیا جاتا ہے وہی آپ کا غلام ہوجاتا ہے پھر وہ آپ کی مرضی ہے مطابق کام کرتے ہیں سچ ہو یا جھوٹ وہ پھر پروا نہین کرتے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس لیے اسلامی قانون کو سامنے رکھ کر ایک صحافی کو کام کرنا چاہیے۔ لیکن صحافی اپنا کام ٹھیک سے انجام نہیں دے رہے جو کہ افسوس کی بات ہے معاشرہ تباہی کی طرف جا رہا ہے۔ پاکستان کہ نام پر ناکامی ہے دنیا کی آج کل نظریں پاکستان پر ہے پاکستان کی ہر بات کو پکڑ لیتے ہیں اور اس کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے  ہیں۔ جو کہ دنیا کی نظر میں پاکستان کو کمزور  دیکھانا چاہیتے ہیں۔ اس لیے ہم لوگوں اس پر عقل سے کام لینا ہوگا پیسوں میں کچھ نہیں رکھا پیسے لے کر دنیا میں حرام تو کما رہے ہو آخرت میں کیا ہوگا خدا کے عزاب سے بچو پاکستان اس وقت نازک حالات سے گزر رہا ہے جو کہ سب کو علم ہے اور اس وقت صحافت کا یہ رویہ برداشت سے باہر ہے۔ 

    جہاں پر بُرے لوگ ہوتے ہیں تو  وہاں پر اچھے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں پاکستان کانام روشن کرتے ہیں سچ عوام تک لاتے ہیں اور عوام کے دلوں میں گھر بنا لیتے ہیں لیکن پاکستان کی  صحافت دیکھی جائی تو معیاری نہیں۔  پاکستان کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر  پاکستان میں کوئی صحافی دل جان لگا کر حقیقت کو سامنے لاتا ہے تو پاکستان میں اس کی جگہ نہیں رہتی یعنی اس کو مار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ کہ بات ہوہی ہے کہ لوگوں کو سچ پسند نہیں اور لوگ جھوٹ کو پسند کرتے ہیں۔ کسی کے خلاف کومیڈیا پرسن بول اُٹھے تو پھر تو اس کو ڈریا جاتا ہے کہ ہماری بات مان لو اور ڈیل کر لو اور پھر بھی وہ صحافی اسن کی بات نہیں مانتا اور سچ کو جاری رکھ کر عوام تک سچ لاتا ہے تو اُس کی آواز کو ہمیشہ کہ لیے بند کر دی جاتی ہے۔ تو کہنا یہ تھا کہ انسان کہا جائے عوام سچ کی منتظر ہے اور سچ دیکھایا نہیں جاتا اور جہاں سچ کی بات ہو جائے تو اُن کو مار دیا جاتا ہے۔ وجہ اور حالات کو کون کنٹرول کرےگا حکومت ہی ایک راستہ ہے جو صحافت کو سیکیورٹی دیں اور ان کی جانیں بچائے کیونکہ کہ اس ملک میں کوئی بھی سچ بولنے والا محفوظ نہیں اور اس ملک کو بچانا ہے جو لوگ سچ کا ساتھ نہیں دیتے اور پیسے لے کر جھوٹ بولتے ہیں ان لوگوں کے خلاف بھی ایکشن ہونا چاہیے۔ کہ وہ لوگ موت سے ڈر کر اپنا ضمیر کیوں بیچ رہے ہیں۔ جھوٹ لوگوں تک کیوں پہنچا رہے ہیں یا تو صحافت چھوڑ دیں کیونکہ جھوٹے لوگوں کی ضرورت نہیں ان لوگوں کا میڈیا سے کوئی تعلق نہیں یا تو دوسرا راستہ ہے کہ سچ بول کر عوام تک سچائی کو لایا جائے زندگی موت خدا کہ ہاتھ میں ہے اس لیے سچ بول کر دنیا کہ ساتھ ساتھ خدا کو بھی خوش کیا جائے اور اپنی آخرت سنواری جائے جو کہ ہم سب کا مسلمان ہونے کہ ناطر فرض ہے۔ اس ملک کا نام بھی روشن ہو گا اور معاشرہ بھی ترقی کرے گا۔ انسان کو ہمیشہ سچ بولنا چاہیے لوگوں کہ پاس صرف میدیا کہ ہی لوگ ہوتے ہیں جن سے ہو خبر کو حاصل کرتے ہیں۔ اور اگر وہی میڈیا پرسن پیسوں کے خاطر جھوٹ کو پھیلانے لگ جائے تو معاشرہ کیاترقی کرے گا۔ اس لیے انسان کو خاص کر میڈیا پرسن کو ضرورت ہے کہ سچ کا ساتھ دیا جائے اورسچ بولا جائے کس سے عوام میں شعور آجائے اور دنیا والوں کو پاکستان کے خلاف بات کرنے کا موقع نا ملے۔