ااکیسویں صدی کا انسان

  • میں اکیسویں صدی کا انسان ہوں مصلحت میرا ایمان ہے منافقت میرا اصول ہے۔ میں ہاتھوں میں کشکول لئے، ہاتھ پھیلائے، ناخدائوں کے دروازے پر ہاتھ باندھنے کھڑا رہتا ہوں اور راتوں کو قباحتوں اور سازشوں کی دیوی کے سامنے جھکا رہتا ہوں میں فریب کے صنم کا پجاری ہوں۔ میں اندھا ہوں مگر میرے اندر کی تاریکی، میری راتوں کی طوالت، مجھے گمراہ کر دیتی ہے۔ میں رات دن جھوٹے عکس کے پیچھے دوڑتا ہوں۔ شب وروز کی مسافت مجھے چکنا چور کر دیتی ہے۔ مگر فاصلے مٹنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ شہر کی پر ہجوم سڑک کے کنارے بنا ہوا عالی شان مکان میری اکلوتی پہچان ہے۔ میں نے اپنا ضمیر بیچ بیچ کر یہ کنکریٹ، اینٹیں اور پتھر کمائے ہیں جو میرا فخر ہے۔ میرے ناخدا میری زندگی کا فخر ہیں۔ میرے دماغ پر تالے پڑے ہیں۔ اپنے آقائوں کی تقلید میرا فرض ہے۔ میری انا کا جنازہ نکلتا ہے۔ میری غیرت سر بازار بکتی ہے۔ میرے لبوں پر جنبش تک نہیں آتی۔ قافلے اجڑتے ہیں۔ میں تماشہ دیکھتا ہوں۔ میں بولتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ میری آواز کھوکھلی ہے۔ الفاظ بےمعنی ہیں۔ جیسے کوئی ویران صنم خانے میں گھس کر دین حق کا پرچار کرنے کیلئے باآوز بلند تقریر کر رہا ہوں۔ عجب وہم و گمان میرے ذہن پر ہر وقت مسلط رہتے ہیں۔ خوف میری رگوں میں بس گیا ہے، میں نماز میں اپنے آقائوں کے بارے میں سوچتا ہوں اور تسبیحوں پر اپنے فوائد و نقصانات گنتا ہوں۔ کتنی ہی مرتبہ اپنے کئے پر پچھتاتا ہوں مگر میرا لٹا ہوا سکون واپس نہیں آتا۔ میں ڑاکٹروں سے مشورے کرتا ہوں مگر کوئی دوا باعث شفا نہیں ہوتی۔ رات کے کسی پہر اپنے آپ سے لڑتے جھگڑتے مدہوش ہو جاتا ہوں اور صبح جب مشینوں کے شور سے آنکھ کھلتی ہے تو پھر وہی گزشتہ مصیبتیں گھیر لیتی ہیں۔ میں روزانہ بکتا ہوں کبھی چند نوٹوں کی خاطر، کبھی جھوٹی عزت کی خاطر اور کبھی چند دھندلے عکسوں کی خاطر میں سکون کی بھیک مانگتا ہوں کبھی قمارخانوں میں، کبھی رات کی تاریکی میں، کبھی دن دھاڑے، مگر آج میں اپنے آپ کے اندر قید ہوں ۔

0 comments