انسان نرمی اور سختی کے درمیان

  • انسان نرمی اور سختی کے درمیان

    تنے نرم نہ بنو کہ نچوڑ لئے جاو اور اتنے سخت نہ بنو کہ ٹوٹ جاو"

    یہ بات جو انسان سے تقاضا کرتی ہے کہ اپنا نفس اور دوسرے افراد سے معاملہ کرتے ہوئے نرمی کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے لیکن اس سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ حق کے علاوہ کسی چیز پر رضامند ہوا جائے، کیونکہ یہ نرمی نہیں اور نہ جرآت و مردانگی کا تقاضا ہے جو دین اسلام انسان کے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے اس سے مراد انسان کا اپنی سوچ اور اپنے معاملات میں حق کے صرف ایک زاویے تک محدود نہ رہنا اور اسی کی عام جوانب کو مدنظر رکھنا ہے اگر کسی مسئلے کے بارے میں علماء کی ایک سے زیادہ آراء موجود ہوں تو ہمیں حق حاصل ہے کہ ایک رائے کو اپنا لیں تاہم اس کو دوسروں پر بھی فرض ہا لازم کرنے کی کوشش نہ کریں ۔ کیوں کہ اگر دوسرے لوگ کسی اور رائے کو اپنا رہے ہیں تو وہ حق پر ہو سکتے ہیں ۔ لہذا مختلف آراء کو اپناتے ہوئے ہمارے درمیان جھگڑے، اختلافات اور دشمنیاں نہیں پیدا ہونی چاہئیں ۔

    نرمی خوب سوچنے اور اچھے برتاؤ کا نام ہےجو شریعت کے دائرے میں ہو اور اس کی تعلیمات سے متصادمم نہ ہو۔مسلمانوں پر گزرنے والے فتنوں کا اس کے علاوہ اور کوئی سبب نہ تھا کہ نرمی مفقود تھی اور سختی کا غلبہ تھا اور تعصب اپنی تمام تر شدت کے ساتھ قائم تھا۔

    امت پر ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے کہ اپنا مسلک چھوڑ کر دوسرا مسلک اختیار کرنے کو جرم گردانا جاتا تھا اور اپنی رائے سے ہٹ کر کسی اور کی رائے کو اختیار کرنے والے سے بیزاری کا اظہار کیا جاتا تھا حتی کہ ایک مرتبہ جب علماء سے کہا گیا کہ ایک مسلک پر متفق ہو جائیں تاکہ اس کے مطابق فیصلہ کیا جا سکے تو کوئی بھی اس کے لئے تیار نہ ہو اور نتیجہ یہ ہوا کہ فرانسیسی قانون نافذ کر دیا گیا یہ ایک فطری بات ہے کہ جب کسی بات کے دوران تعصب کا غلبہ ہو تو یہ سختی کے زمرے میں شمار ہوتی ہے ۔

    حق اور باطل کے درمیان کوئی نرمی قابل قبول نہیں کیونکہ اسکا مطلب دین میں حداہنت سے کام لینا ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول نے ممنوع قرار دیا ہے یہاں پر نرمی سے مراد حق کے درجات و مراتب کو استعمال کرنا یا حق کے متعدد پہلوؤں میں سے کسی ایک پر عمل کرنا ہے۔ یقینا حق اتنا وسیع ہے کہ تمام لوگ اس کا احاطہ نہیں کر سکتے کیونکہ حق اس کائنات کی سب سے اعلی اور نمایاں چیز ہے اور زمین و آسمان حق کی وجہ سے قائم ہیں تو کیا کثرت آرائی کی وجہ سے حق میں کوئی کمی یا تنگی آئے گی یا وہ اتنا ہی وسیع ہے کہ ہر کوئی اس سے اپنا حصہ لینے کے باوجود دوسروں کے لیے رکاوٹ نہیں بنتا کیونکہ دریا کا پانی زیادہ استعمال کرنے سے خشک نہیں ہوتا ۔ درحقیقت قرآن و سنت پر مبنی مظبوط ۔دلیل کو حکمت کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے تو لوگوں میں اس کے لئے نرمی پیدا ہو جاتی ہے اور عقل کیلئے قابل قبول ہوتی ہے۔

    دوسروں کے ساتھ برتاؤ اور معاملات میں نرمی سے پیش آنا اس بات کی بنیاد بنتا ہے کہ ان کی آراء کو سنا جائے اور ان کو خیالات کے اظہار کا موقع دیا جائے اور اگر کوئی باطل چیز ہو تو علی الا علان اس کو مسترد کر دینا چاہئے اور اس کو مسترد کرنے کے لیے قرآن و حدیث پر مبنی دلیل پیش کرنی چاہیے ۔ یہ تو لوگوں کے ساتھ انفرادی برتاؤ کا معاملہ ہے اگر ہم دائرے سے نکل کر مختلف صورتحال میں انسان کے رویوں، معاملات اور تصرفات پر نظر ڈالیں تو بعض مواقع پر نہ چاہتے ہوئے نرم رویہ اختیار کرنا زیادہ مفید ہے جو کامیابی کو قریب اور ناکامی کو دور لے جانے کے مترادف ہے کیونکہ اس سے انسان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور اللہ پر ایمان لانے ہوئے اس کی مدد پر بھروسہ کرتا ہے اس ایمان کی وجہ سے انسان کا نفس مطمئین رہتا ہے اور مسائل حل کرنے کی کرنیں خود ہی مل جاتی ہیں۔ کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے دور نہیں چلے گئے جس میں ارشاد ہے

    "نرمی کسی شے میں زینت پیدا کرتی ہے اور جب اسے نکال دیا جائے تو بد صورتی رہ جاتی ہے "