Mukaam e ustaad

  •  

    مقا م استا د

    ۔سب جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں استاد کا کیا مقام ہے۔ ہر روز ایسے دل جلے اور دل خراش واقعات رونما ہوتے ہیں جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے آج

    استاد کو وہ جائز مقام نہیں دیا جس کا وہ حق دار ہے۔ ہم سب یہ واقعات دیکھتے ہیں ، سنتے ہیں ، سہتے ہیں ، سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں اور اس کے متعلق لکھتے ہیں لیکن صد افسوس پھر بھی ہمارے کان پر جُوں تک نہیں رینگتی اور ہم استاد کو جائز مقام سے محروم رکھتے ہیں۔ اشفاق احمد (مرحوم ) کے ساتھ اٹلی میں پیش آنے والا واقعہ سینکڑوں بار کالموں میں پڑھ چکی ہوں اور میں نے خود بھی ایک کالم میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ چند لمحوں کے لئے دلوں میں اُتر جاتا ہے ، استاد کی عظمت و مقام دماغ میں بیٹھ جاتی لیکن اس کا اثر عارضی ہوتا ہے۔ جب ہمارے معاشرے کا یہ حال ہو تو ہم عروج اور ترقی کی باتیں کیوں کرتے ہیں اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں اور اُن سے مقابلہ کیوں کرتے ہیں۔ صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ ہم نے ترقی نہیں کرنی ، ہم نے معاشرے کو نہیں سدھارنا ، ہم نے انفرادی اصلاح نہیں کرنی اور ہم نے سائنس و ٹیکنالوجی میں اقوام عالم سے مقابلہ نہیں کرنا ہے بلکہ ہم نے اپنی پسند کی زندگی گزارنی ہے خواہ وہ جاہلیت سے پینٹ کیوں نہ ہو اور کرپشن سے ڈھکا معاشرہ کیوں نہ ہو ۔ اخبار اور ٹیلی ویژن پر تعلیم اور اساتذہ سے متعلق خبریں پڑھتی اور سنتی ہوں۔ کسی بھی وزارت کا وزیر ہو یا مشیر ، سب تعلیم کی اہمیت کا اعتراف کرتے ہیں ۔ مجھے اُن کی باتوں پر ہنسی آتی ہے کیوں کہ عملاً ایسا دیکھنے کو نہیں ملتا۔ یہ محض طوطے کی طرح رٹی رٹائی باتیں ہوتی ہیں۔ 

    اُمید ہے کہ اس تمہید سے آپ اتفاق کرتے ہوں گے۔ اَب ذرا دو واقعات ملاحظہ ہوں۔ پرسوں میں اپنی ہمشیرہ کو سکن ڈاکٹر کے پاس لے کر گیی۔ سب سے پہلا دھچکا اُس وقت لگا جب کمپاؤنڈر نے آٹھ سو روپے چیک اَپ فیس کا مطالبہ کیا۔ حالاں کہ کچھ دن پہلے یہ فیس چھ سو روپے تھی۔ شاید ملک کے اندر پھیلی مہنگائی کی لہر نے ڈاکٹر صاحب کو کچھ زیادہ ہی متاثر کیا ہو۔ دوسرا دھچکا اُس وقت لگا جب اپنا نمبر سینتیس چیٹ پر دیکھا۔ ابھی ڈاکٹر کو کلینک آنے میں آدھا گھنٹہ رہتا تھا۔ میں چیٹ لے کر سائید پر کھڑی ہوگی اور ہمشیرہ کو زنانہ انتظار گاہ میں بیٹھا دیا۔ میرے ساتھ میرا ڈرائیوراور دوست بھی موجود تھی۔ جب میں نے اُس سے سارا معاملہ ڈسکس کیا تو اُس نے کہا کہ سینتیس نمبر آتے آتے آپ کی کلاس چھوٹ جائے گی۔ میں نے اپنا سروس کارڈ اُس کے حوالے کیا اور کہا کہ جب ڈاکٹر پہنچے تو انہیں کارڈ دکھا کر میرا بتا دینا۔ شاید ڈاکٹر ہمیں جلد فارغ کر دے اور میں اپنی ریسرچ کلاس تک پہنچ جاؤں گی۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس نکلا (جس کی مجھے توقع تھی )، اُس نے کارڈ دیکھنا گوارا تک نہ کیا اور مغرور انداز میں کلینک میں داخل ہوا۔ میں نے دوست کو دل برداشتہ دیکھ کر کہا کہ آپ خفا نہ ہوں اور اس کو دل پر نہ لیں کیوں کہ اس معاشرے میں استاد کی کوئی قدر نہیں ہے۔ میں نے اُس کو کہا کہ آپ کمپاؤنڈر سے ملیں اور اُس کو مجبوری بتلائیں ، اُمید ہے کہ وہ حل نکال دے گا۔ میری بات درست ثابت ہوئی، تقریباً پندرہ منٹ بعد ہمارا نمبر آگیا اور ہم کلینک سے باہر آگئے۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان کے پاس استاد کی قدر نہ تھی جس کو اس مقام تک پہنچانے میں استاد ہی کا کردار ہے۔ کہتے ہیں کہ جب ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ کو ’’سر ‘‘ کا خطاب ملا تو انہوں نے کہا کہ سر میں نہیں ، میرے استاد مولوی میر حسن ہیں۔ تو اس وقت کے گورنر لارڈمیکا لیگن نے علامہ محمد اقبال ؒ سے پوچھا کہ مولوی میر حسن کی کون سی تصنیف ہے ؟ تو علامہ محمد اقبال ؒ نے بہت خوب صورت جملہ کہا کہ میں مولوی میر حسن کی زندہ کتاب ہوں۔ 

    دوسرا واقعہ جو میں یہاں آپ سے شیئر کرنے والی ہوں وہ میرے ایک شفیق پروفیسر دوست کے ساتھ پیش آیا۔ ایک دن وہ کالج دیر سے پہنچا تو میں نے خیریت اور تاخیر کا سبب پوچھاتو انہوں نے کہا کہ وہ جب گاؤں سے کالج آتے ہیں تو اکثر آخری سٹاپ سے شہر کی جانب آنے والی سوزکی پک اَپ بھری ہوتی ہیں ۔ لہٰذا وہ شہر سے آخری سٹاپ جانے والی کسی پک اَپ کے ڈرائیور کو روک کر کہتے ہیں کہ واپسی پر فرنٹ سیٹ میرے لئے خالی چھوڑنا۔ یوں وہ سہولت کے ساتھ کالج آجاتے ہیں۔ لیکن اُس نے بتایا کہ آج یوں ہوا کہ میں نے ایک ڈرائیور سے کہا کہ وہ میرے لئے فرنٹ سیٹ چھوڑ دے۔ ڈرائیور نے یقین دہانی کرادی لیکن مجھے مایوسی کا سامنا اُس وقت ہوا جب وہ پک اَپ آخری سٹاپ سے ہمارے گاؤں پہنچی تو فرنٹ سیٹ پر پولیس کا تھانیدار براجمان تھا۔ ’’یہی میری تاخیر کا سبب بنا‘‘۔ پروفیسر دوست نے دل برداشتہ لہجے میں کہا۔ ’’ آج مجھے استاد اور تھانیدار کی طاقت کا اندازہ ہوا ‘‘۔ یہ ہے ہمارے معاشرے میں استاد کا اصل مقام۔ اس کے باوجود بھی ہم نے اُمید کے پُل باندھ رکھے ہیں کہ ہم ایک دن ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہو جائیں گے۔ اختتام ’’زاویہ ‘‘ کے اس اقتباس سے کرتی ہوں۔ ’’ ایک بار ڈیرے پر ہم نے بابا جی سے پوچھا کہ سرکار انسان کو پناہ کہاں ملتی ہے ؟ تو فرمانے لگے: ماں کی آغوش میں ، اگر وہ میسر نہ ہو تو والدین کی دعاؤں میں ۔ اگر وہ بھی بد قسمتی سے نہ ملے تو پھر علم میں۔ وہ علم کتابی یا حساب الجبرے کا ہی نہیں ، ایسا علم جس سے آپ کی ذات ، روح اور دوسروں کو فائدہ پہنچے ۔