خود غرضی اور ناشکری

  • ہم کون ہیں ہماری پہچان کیا ہے ہم دنیا میں کیوں بھیجے گئے ہیں ہم مرد ہیں یا عورت جو بھی ہیں سب سے پہلے ہم ایک انسان ہیں جسے بنانے والے نے کائنات کی ہر شے پہ فوقیت بخشی ہے اور وہ اپنی اس مخلوق سے اپنی تخلیق کردہ دیگر تمام مخلوقات کے مقابلے میں سب سے زیادہ محبّت رکھتا ہے

    لیکن انسان خود غرضی اور اپنی ناشکری طبیعت کے باعث رب کی اس محبت کا حق ادا کرنے سے قاصر ہے کیوں؟

    لیکن یہ معاملہ ہمیشہ سے ایسا نہیں رہا بلکہ اس دنیا میں ایسے بہت سے انسان ہو گزرے ہیں کہ جنہوں نے اپنے رب کی ان نعمتوں کا حق بہت خوش اسلوبی سے ادا کیا ہے اپنی عقل اور علم سے کام لے کر قدرت کی طرف سے عطا کردہ صلاحیتوں کو کھوجا اور اپنے اندر چھپے ہنر کو تلاش کر کے دنیا میں لازوال کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ہیں کہ جس کے بل بوتے پر آج بھی ان کے نام تاریخ کے اوراق پر سنہری حروف میں درج ہیں اور ایک دنیا ان کے کارناموں کے لئے آج بھی ان کے نام اور مقام کو قابل ستائش نظروں سے دیکھتی اور سراہتی ہے

    اور یہ سب مقام انہیں اپنی نیت اور اپنے عمل کے طفیل حاصل ہوا ہے کیوں کہ انہوں نے محض اپنے ذاتی فائدے یا خوشی کی خاطر زندگی کی سختیاں نہیں سہیں بلکہ انہوں نے انسانیت کے آرام و سکون کے لئے اپنے دن رات کا آرام تج دیا اور خود کو دشواریوں میں ڈال کر پوری انسانیت کے لئے آسانیاں تلاش کرنے میں سرگرداں رہے سچی لگن، جذبے اور خلوص دل سے محنت و مشقت کرتے رہے اور بالآخر اپنی محنتوں کا ثمر پالیا کہ کئی صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی ان کا نام عزت و احترام اور شان و شوکت کے ساتھ تاریخ کے اوراق پر جلوہ گر ہے اگرچہ وہ دنیا میں موجود نہیں لیکن ان کے لازوال کارنامے ان کی حیات جاوداں کا منہ بولتا ثبوت ہیں 

    وہ انسان بھی ہم جیسے ہی تھے کے جنہوں نے انسانیت کی بھلائی کے لئے خود کو وقف کر دیا دن رات محنت اور جستجو نے ان پر وہ اسرار بھی عیاں کر دیئے کہ جن تک رسائی عام آدمی کے نزدیک ناممکنات میں سے ہے اور یہ سب انہوں نے محض اپنے ذاتی فائدے نام یا مقام کے حصول کی خواہش میں نہیں کیا بلکہ انسانیت کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کے لئے کیا ہے

    آخر وہ بھی تو ہماری طرح کے انسان ہی تھے کہ مفکر پاکستان علامہ اقبال نے جن کے کارناموں کو خراج تحسین ان القاظ میں پیش کیا ہے
    عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
    کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے

    لیکن آج کا انسان کیوں اپنے اس رتبے کو فراموش کر بیٹھا ہے کیوں اپنے مقام سے خود کو زوال آمادہ کرنے پر تلا ہے کیوں آئے دن انسانیت سوز واقعات منظر عام پر آرہے ہیں کیوں انسان انسان کا گلہ کاٹ رہے ہیں کیوں دنیا سے امن محبت اور رواداری ختم ہوتی جارہی ہے

    اس کی سب سے بڑی وجہ خود غرضی ہے جس کی وجہ سے انسان نے اپنے آپ کو صرف اپنے ذاتی فائدے تک محدود کر دیا ہے آج کا انسان انسانیت سے محبت کرنے کی بجائے صرف اپنے انفرادی فائدے سے غرض رکھنے لگا ہے اپنے ذاتی و انفرادی فائدے سے محبت انسان کو خود غرضی پر اکسانی ہے اور یہ خود غرضی ہی انسان میں دیگر معاشرتی برائیوں لالچ، حرص، لوٹ کھسوٹ، ناانصافی اور ظلم و جبر کی جڑ ہے جو آخر کارفتنہ و فساد سے ہوتے ہوتے عبرت انگیز دہشت گردی کی صورت اختیار کرتی چلی جاتی ہے اور یہ عبرت انگیز دہشت گردی ہی انسانیت کے لئے زہر قاتل ہے 

    انسانوں نے رب کی اس زمین کو بڑی محنت اور محبت سے بسایا ہے خدارا اسے یوں تباہ نہ ہونے دیں چند انسانیت کے دشمنوں کے ہاتھوں کا کھلونا بننے سے بچائیں خود غرضی اور ذاتی مفاد کی روش چھوڑ کر متحد ہو جائیں اور ہر اس شیطانی قوت کے سامنے ڈٹ جائیں جو انسانیت کو تباہ کرنا چاہتی ہے 

    رب کائنات کی رحمتیں اور نوازشیں آج بھی اپنے بندوں پر جاری و ساری ہیں صرف انسان پر خود غرضی کی عارضی غفلت طاری ہے جس روز انسان نے اپنی آنکھوں کے آگے سے خود غرضی کی غفلت کا یہ پردہ چاک کر دیا اور انفرادی غرض کو تج کر اجتماعی بھلائی کے لئے کام کرنا شروع کردیا سمجھ لو کہ وہ دن دور نہیں جب دنیا سے رفتہ رفتہ ہر برائی کا قلع قمع ہو جائے گا

    ایسا نہیں کہ آج کی یہ دنیا اخلاص اور محبت کرنے والے انسانوں سے بالکل عاری ہے اگر ایسا ہوتا تو یہ دنیا اب تک قائم نہ رہتی بلکہ کب کی نیست و نابود ہو چکی ہوتی آج بھی اپنی غرض سے بالاتر ہو کر سوچنے والے انسان اور انسانیت سے محبت رکھنے والے ، بےغرض ہوکر انسانیت کے لئے کام کرنے والے مخلص انسان دنیا میں موجود ہیں انہیں تلاش کریں ان کا ہاتھ تھام لیں اور ان کے قدم سے قدم ملا کر چلیں انشا‏ءاللہ انسانیت کو درپیش بہت سے مسائل پر جلد یا بدیر قابو پانا ممکن ہو جائے گا

    اللہ تعالٰی انسانوں میں خود غرضی اور اس سے پیدا شدہ دیگر منفی رجحانات کو اپنے اندر سے ختم کرنے کی صلاحیت پیدا کرے کہ انسان ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر اخلاص و محبت کے ساتھ متحد ہوجائے، اللہ تعالٰی انسانوں میں انسانیت کی خدمت و بھلائی کرنے کا جذبہ پیدا کرے تاکہ انسان اور انسانیت پھر سے اپنا وہ مقام حاصل کر لے جو واقعتاً انسانیت کے شایان شان ہے (آمین)