تنہائی اور خوف

  • کبھی کبھی انسان تنہائ میں بھی تنہا محسوس نہیں کرتا اور اپنے اندر ایک محفل سجاے بیٹھا ہوتا ہے اور کبھی محفل میں بھی تنہا محسوس کرتا ہے اصل میں اس کا تعلق ہمارے اندر کے احساسات سے ہوتا ہے جس کا تجربہ کم از کم مجھے تو ضرور ہوا ہے اور بعض اوقات آپ خوفزدہ نہیں ہوتے لیکن کسی کے الفاظ آپ کو خوف کا احساس دلاتے ہیں اور یہ بھی پڑھا کہ خوف انسان کے اپنے اندر ہوتے ہیں وہ نفسیاتی ہوں یا اپنے کرتوتوں کے ورنہ باہر کی دنیا اسے نہیں ڈرا سکتی اگر وہ اندر سے مضبوط اور مطمئن ہو ۔ 

    ان دونوں کیفیات سے میں بھی خصوصی طور پر گُزرا ہوں اور شائد ہر آدمی گزرتا ہے ایک بار ایک کتاب پڑھی جس میں لکھا ہوا تھا کہ نفسیات کا علم کہتا ہے کہ جب خوف ایک حد سے بڑھ جاۓ تو آدمی نڈر ہو جاتا ہے اور یہ بات میں نے دفتر کے ساتھی سے شئیر کی اب اتفاق دیکھیں کہ ٹھیک ایک ہفتہ کے بعد مجھے اس کا تجربہ ہوا ورنہ تو یہ ایک کتابی بات ہی رہتی اور ہوا یوں کہ غلطی کہہ لیں یاغلط فہمی جس کی وجہ سے ایسی صورت حال پیدا ہو گئ کہ مجھے ایسی جگہ جانا پڑ گیا جہاں مستند بندوق بردار کئ تعداد میں میرا انتظار کر رہے تھے کہ جیسے ہی آے گا تو گرفتار کر لیں گے اور میں اُن کی آنکھوں میں دھول جھونک چکا تھا اور وہ تعقب میں تھے اور مجھے پا نہیں سکے تھے مگر میں کسی کی محبت میں گرفتار تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ بات اُس پر آے حالانکہ کسی نے کہا بھی تھا کہ تم اپنے تایا کے گھر جا کر دوسرے شھر چھپ جاؤ اور میں سب سنبھال لوں گا مگر کوی لمحہ ہوتا ہے کہ انسان کو قدرت طاقت فراہم کرتی ہے اور ایک فیصلہ کہ میں نے سامنا کرنا ہے صورت حال کا ورنہ ساری زندگی پچھتاوا رہے گا اور پھر صنم آشنا دل کے باوجود سجدہ کیا اور خدا کی مدد کی آس میں بے خطر کود پڑا اور ایک مشابہت کھوٹی ہی سہی اور چھوٹی ہی سہی اور بات بڑی اور منہ چھوٹا ہی سہی مگر بنتی تو تھی اور بنتا تو ہے اقبال کا شعر 

    بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
    عقل ہے محوِ تماشاے لبِ بام ابھی

    بتانے کا مطلب ہے کہ وہ عقل کا نہیں دل کا فیصلہ تھا اور ایک کمزور کا فیصلہ تھا اور زور آور کی للکار تھی اور طاقت کی یلغار تھی اور ٹوٹی میری تلوار تھی اور مضطرب کی پکار تھی اور کسی کی دعا مدد گار تھی جو قبولیت کو بے قرار تھی اور منظوری کو تیار تھی

    اور میں وہاں پہنچ گیا اور وہ بڑے حیران ہوۓ اور سات دن ان کا مہمان رہا اُن کی قید میں اور زندگی کا ایک انوکھا تجربہ ہوا اور وہاں پہلی دفعہ انسانوں سے بہت قریب رہا جن کو بوجوہ وہاں آنا پڑ گیا تھا اور وہ اچھے خاندانوں سے تھے اور یہ ایکا اور ایک دوسرے سے محبت شائد مجھے مسجد میں بھی کبھی محسوس نہ ہوا ہو شاید غم ایک ہو یا مقصد ایک ہو تو انسان انسان سے قربت محسوس کرتا ہے 


    اور وہاں کا وہ ناشتہ میں نہیں بھولتا جو ہم سات لوگ سات دن تک کرتے رہے اور میں اُن دنوں کو " سات سنہرے دن" کے نام سے یاد کرتا ہوں " اور جب ایک غریب سا مظلوم لڑکا جو کچرے سے کباڑ اُٹھانے کا کام کرتا تھا اور اس کی بہن اس کے لیے جو ناشتہ لائ تھی اور کس محبت سے اس نے مجھے پیش کیا تھا جو سوکھا ایک سخت سا گول بن کسی عام سی بیکری کا جو ٹھنڈی چاے میں ڈبو کر کھانا تھا جس میں دعا تھی جس میں شفا تھی جس میں محبت تھی جس میں دُکھ اور سُکھ کا ساتھ تھا جس میں قربانی تھی جس میں مزہ تھا جو آدھا میں نے اور آدھا اُس نے میرے کہنے سے جو کسی فائیو اسٹار برگر سے کم نہیں تھا اور اس کا ذائقہ اب تک نہیں بھول پایا جو اُن دنوں کی یاد دلاتا ہے 
    اور اس وقت ایک سفارش بھی آئ تھی میرے لیے وی آئ پی سہولت کے لیے مگر میں نے ان محبت کرنے والے لوگوں کو ترجیح دی جہاں میرا دل لگ چکا تھا اور میں نے بڑا ہلکا اور تازہ دم محسوس کیا اپنے آپ کو
    ایک بات اور حوصلہ دیتی تھی کہ بے شک ہم خطا کار ہی سہی مگر مشابہت تو بنتی ہے بڑے لوگوں سے کہ انہیں بھی قید تنہای سے گزرنا پڑا

    اور قید کا ذکر خدا نے بھی کیا سورہ یوسف میں

    اے قید خانہ کے رفیقو! کیا کئی جدا جدا معبود بہتر ہیں یا اکیلا اللہ جو زبردست ہے۔

    اور وہاں سے نکل کر زندگی بڑی خوبصورت دکھنے لگی تھی اور شاید تقدیر بدل چکی تھی اور نیا حوصلہ مل چکا تھا اور مٓن کی بادشاہت مل چکی تھی 

    بات تنہای کی ہو رہی ہو تو کتاب کا ذکر لازم ہے کہ تنہای کی بہترین ساتھی ہوتی ہے
    تنہائ کی بھی بڑی قسمیں ہوتی ہیں 
    جب کسی صورت حال میں دنیا آپ کا ساتھ دینا چھوڑ دے تو آپ بھیڑ میں بھی اکیلے رہ جاتے ہیں اور جس کا کوی نہیں اس کا خدا ہوتا ہے اور کسی طرف سے امید نہ رہے تو آپ یکسوئ سے دعا مانگتے ہیں

    اور کچھ خوش نصیب خدا کے بندے جن کے بارے میں کہا گیا 

    لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون

    نہ انہیں کوی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہونگے