ریلوے کا سفر ۔۔۔ غلام احمد بلور سے شیخ رشید احمد تک ۔۔

  • ریلوے کا سفر ۔۔۔ غلام احمد بلور سے شیخ رشید احمد تک ۔۔
    دوسرے سمسڑ کے مضمون ’’ ڈاکُمنٹری پروڈکشن ‘‘ میں ہمیں کسی ایک مضمون پر ڈاکُمنٹری فلم بنانے کا کہا گیا ۔ کا فی سوچ بچار کے بعد ہم نے پاکستان ریلوے پر فلم بنانے کا ارادہ کیا ۔ اس فلم کی پروڈکشن کے دوران ہم نے ریلوے کے اعلیٰ افسران کے انٹرویو کیے ۔ اوراس دوران ریلوے کی ورکشاپ کو قریب سے دیکھنے کابھی موقع ملا ۔ان انٹر ویو کے دوران ہمیں کافی دلچسپ معلومات ملی۔ یہ ’’ پاکستان مسلم لیگ (ن) ‘‘ کی حکومت کے آخری ایام تھے ۔لیکن اس دورِ حکومت کی پالیسیوں سے محکمے کے لوگ کافی خوش نظر آرہے تھے ۔لیکن ہم نے ان سے ایک سوال کیا کہ ریلوے ہر سال خسارے میں جاتی ہے اور آپ اس حکومت کی پالیسوں سے کافی خوش نظر آرہے اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب فقط اتنا ملا کہ ریلوے پچھلی حکومت میں ناکارہ ہو چکی تھی لیکن اس حکومت نے اسے اپنی حالت میں لانے کی بھر پور کوشش کی ۔ جس کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد واپس آیا ہے اور وہ پھر سے سفر کیلئے ریل کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ اور ریلوے کا رحجان کافی بڑھ گیا ہے ۔ لیکن ایک صحافت کے طالبِ علم کی حثیت سے یہ جواب ہمارے لیے کافی نہ تھا ۔ گویا ہم نے اس کا جواب خود ڈھونڈنے کی کوشش کی ۔جس کی بدولت کافی حقائق ہمارے سامنے آئے ۔ آئیں ان حقائق پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ 
    دراصل اس سوال کا جواب ایک پہیلی ہے ۔اس کو سمجھنے کیلئے ہمیں مشرف دور کی طرف جانا پڑے گا ۔ مشرف دور کے ریلوے وزیر’’ شیخ رشید احمد ‘‘ نے 2004 میں چائنہ سے 69 ،انجن خریدے لیکن سب سے بڑی غلطی یہ کی انھوں نے اس کے اسپیئر پارٹس کا معاہدہ نہیں کیا ۔اس غلطی کا نا قابلِ طلافی نقصان ہوا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ انجن پرانے ہوتے گئے اور اسپیئر پارٹس نہ ہونے کی وجہ سے ریپئر نہ ہو سکے اور کچھ ہی عرصہ میں یہ ناکارہ ہو گئے ۔ جس کا نقصان نئی آنے والی حکومت پاکستان پیپل پارٹی کو ہوا ۔ جب 2008میں پاکستان پیپل پارٹی بر سراقتدار تھی تو وہ انجن ناکارہ ہو چکے تھے ۔ اور معاہدے کے مطابق اسپیئر پارٹس کی عدم فراہمی کی وجہ سے یہ انجن کسی کام نہ آسکے اور نہ ہی اس وقت کے ریلوے وزیر نے کو ئی نئے معاہدے کی کوشش کی ۔ جس کی وجہ سے ریلوے مفلوج ہو کر رہ گئی ۔ اور اس کا2012۔ 2011کا خسارہ 35بلین تھا ۔ اور ریلوے انجنوں کی تعداد 180تھی ۔ 
    پھر جب 2013میں پاکستان مسلم لیگ اقتدار میں آئی تو اس نے چائنہ کے خراب انجنوں کو چھوڑ کر باقی خراب انجن پر کام شروع کیا اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔ اب ان کی تعداد 180سے بڑھ کر 325ہوگئی ۔ 2013سے قبل 18ارب کمانے والی ریلوے اب 50ارب کمانے لگی ۔ اس سب کے باوجود ریلوے ابھی بھی خسارے میں ہے ۔ اور سابقہ وزیر ریلوے کا کہنا ہے کہ یہ خسارہ ، ریٹائرڈ لوگوں کی پنشن کی وجہ سے ہے ۔ لیکن 2013-2016 کے دوران میڈیا رپورٹ کے مطابق 530ریلوے حادثات ہوئے اور ریلوے کی رپورٹ کے مطابق 300حادثات ہوئے جوکہ حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اس وقت ریلوے کا خسارہ 60ارب ہو گیا ہے ۔ اور سپریم کورٹ میں اس وقت سابق وزیر پر مقدمہ چل رہا ہے ۔ 
    اب شیخ رشید احمد کو دوبارہ ریلوے کا وزیر بنا دیا گیا ہے ۔ شیخ رشید احمد کو اب بہت محنت کرنی ہوگی ۔ ان کیلئے صرف ایک بات مفید ثابت ہوگی کہ ریل اس وقت چلتی حالت میں ہے ۔ وہ اب اسی مزید بہتر بنا سکتے ہیں ۔ اور لوگوں کو ان سے کافی امیدیں ہیں ۔ اور حال ہی میں شیخ صاحب نے اپنی پرانی غلطی کی اصلاح کی ٹھان لی ہے ۔ وہ دوبارہ چائنہ سے اسپیئر پارٹس کے معاہدے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اور چائنہ حکا م سے ملاقاتیں کر رہے ہیں ۔ امید کرتے ہیں کہ ریلوے جو کہ ایک غریب آدمی کیلئے آرام دہ سواری سمجھی جاتی ہے اپنی اصلی حالت میں جلد نظر آئے گی اور غریب عوام کو اس کا فائدہ ہوگا۔ 

0 comments