لازم ہے کہ ہر فرد حسین ؑ ابن علی ہو :۔

  • واقعہ کربلا اسلام کی روح ہے ۔ یا اس طرح کہ سکتے ہیں کہ اس واقعے نے اسلام کو نئی روح بخشی ۔ اس واقعے کو سمجھنے کیلئے ہمیں اسلام کی تاریخ کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اس واقعہ کا ذکر نبی پاک ﷺ کی مبارک زندگی سے ملتا ہے ۔     سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ ایک دن میں نبی کریمﷺ کے پاس گیا تو (دیکھا) آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ میں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! کیا کسی نے  آپ کو ناراض کردیا  ہے ؟ آپ کی آنکھوں سے آنسو کیوں بہہ رہے ہیں؟آپﷺ نے فرمایا : بلکہ میرے پاس ابھی جبریل (علیہ السلام) اُٹھ کر گئے ہیں، انہوں نے مجھے بتایا کہ حسین کو فرات کے کنارے قتل (شہید) کیا جائے گا۔ (مسند احمد ۸۵/۱ ح ۶۴۸ و سندہ حسن ، عبداللہ بن نجی و ابوہ صدوقان و ثقہما الجمہور ولا ینزل حدیثہما عن درجۃ الحسن ، انظر نیل المقصود فی تحقیق سنن ابی داود: ۲۲۷)سو        اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شہادت ضرور واقع ہونی تھی ۔ لیکن اس شہادت کی وجہ کیا تھی اس پر ہم ذرا روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اسلام سے پہلے دنیا میں بادشاہت کا نظام تھا لیکن جب اسلام دنیا میں پھیلا تو اللہ نے مومئنیں کیلئے ہدایات جاری کی اور اس ہدایات کا عملی نمونہ نبی پاک ﷺنے اپنی زندگی میں پیش کیا ۔ اور ان ہدایات سے بھٹکنے والوں کو سخت وعید سنائی گئی ۔ بادشاہت کا نظام اپنے انجام کو پہنچا ۔ اور تقویٰ کا نظام متعارف کرایا گیا ۔ اب جب تک آپ ﷺاس زندہ رہے تب تک سارے مسلمان متحد تھے ۔ نبی پاکﷺ کی اطاعت میں سارے صحابہ کرام ؒ اپنی جان تک کے نذرانے پیش کرنے سے دریغ نہ کرتے تھے ۔ لیکن آپ ﷺکی رحلت کے بعد مسلمانوں میں اختلاف ابھرنا شروع ہو گئے لیکن خلافت کا نظام قائم رہا ۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خلافت کے نظام کو بادشاہت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی اور ان بادشاہت کے نظام لانے والوں نے اسلام کو چھوڑ کر اپنی منمانی شروع کر دی اور انھوں نے اسلام کے احکام میں تبدیلیاں لانا شروع کردیں ۔ اس نظام بادشاہت سے اسلام کی اصل شکل ختم ہو رہی تھی اور اہل بیت پر نعوذبااللہ لعن تعن کا سلسلہ اٹھ کھڑا ہوا ۔ اس نظام کے خلاف جو آواز اٹھاتا اسکا سر قلم کر دیا جاتا ۔ اس بگڑتی ہوئی اسلام کی حالت کو بچانے کیلئے اور وہی تعلیمات دوبارہ زندہ کرنے کیلئے جو نبیﷺنے اللہ کے حکم سے متعارف کرایں تھیں ۔ کوفہ والوں نے حضرت امام حسین ؑ کو خط لکھے اور امام حسین ؑ اسلام کو دوبارہ اپنی حالت میں زندہ کرنے کیلئے اور کوفہ تشریف لے گئے اور وہاں انھوں نے اپنے گھر والوں کے ساتھ حق کا علم بلند کرتے ہوئے سجدے میں شہادت پیش کی ۔ اور نماز میں شہادت پیش کرنا ایک تو نماز کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اوردوسرا یہ ثابت ہوتا ہے کہ کلمہ حق کی خاطر کسی سے نہیں ڈرنا چاہئے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جیسا کہ غزوہ بدر میں نبیﷺ کی مدد کیلئے اللہ نے فرشتے بھیجے لیکن یہاں حضرت امام حسین ؑ کے وقت کیوں نہیں بھیجے ؟ا س سوال کا جواب اقبال ؒ نے اپنے شعر میں کیا خوب دیاہے ۔ 
    اللہ اللہ بائے بسمہ اللہ پدر                        

     معنی     ذبحِ عظیم آمد پسر
    اللہ اللہ جسکا باپ (علیؑ ) بسم اللہ کی ب کا نقطہ ہے ۔اور حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کو جس عظیم قربانی سے بدل دیا گیا تھا وہ امام حسین ؑ کی قربانی تھی ۔ 
    دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت امام حسین ؑ اہل بیت تھے اور ان کی اس شہادت سے ہی مسلم امہ جاگ سکتی تھی اور امام حسین اور امام حسن بلکہ تمام اہل بیت ؑ آپ ﷺ کے بعد سب سے زیادہ معتبر ہیں۔ اور ان اہل بیت ؑ کے شہزادے امام حسین ؑ کی قربانی نے مسلمانوں کے اندر نئی روح بیدار کی اور اس سے مسلم امہ ان یزدیوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ۔ اور اس طرح اسلام کو ایک نئی روح پھونکی اور اسلام کی اصل تعلیمات نے اپنی جگہ سنبھالی اور اسلام کی یہ تعلیمات امر ہوگیءں ۔ اور امام حسینؑ امر ہو گئے ۔ 
    اقبال نے کیاخوب پرفرمایا ہے 
    مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلی ہو 
    لازم ہے کہ ہر فرد حسین ابنِ علی ؑ ہو 
    (اس مضمون کو لکھتے ہو ئے اللہ پاک کمی بیشی معاف فرمائیں آمین )