خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا :۔

  •  جولاِئی 25کو الیکشن ہوئے ملک میں ایک نئی امید نے جنم لیا ۔ لوگ کافی سالوں بعد ایک لیڈر کی تلاش میں کامیاب ہو گئے ۔ان کو ایک مسیحے کی تلاش تھی اور اب وہ      تلاش مکمل ہو گئی ۔ لیکن ان معصوم لوگوں کوکون سمجھائے کہ مسیحا تب ہی آتا ہے جب قوم اپنی حالت زار بدلنے کیلئے اپنے قول وفعل میں ایک مثبت تبدیلی لائے اور ایک قائد کی تلاش کی منتظر رہنے کی بجائے خود اپنی حالت بدلنے کی ٹھان لے۔ کیونکہ اقبال نے یہ بات با خوبی اپنے شعر میں بیان کی ہے 
    تھے تو وہ آباء ہی وہ تمھارے مگر تم کیا ہو
    ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فرداں ہو 
    خیر اب ان کی تلاش مکمل ہوگئی ۔اب لوگ پورا دن ٹیلی ویژن لگا کر تبدیلی کی تلاش میں بیٹھ گئے ۔ باقی جو لوگ بچے وہ بھی ٹی وی لگا کر اس میں خامیاں تلاش کرنے لگے ۔ اس طرح کچھ اور وقت نئے قائد کی تقریروں میں گزر گیا ۔ اور عوام تبدیلی کو محسوس کرنے کیلئے اپنے کام کو چھوڑ کر تبدیلی کی گھات لگائے بیٹھ گئی ۔ روزانہ ٹیلی ویژن پر طعنہ زنی ہوتی رہی اور لوگ ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے رہے ۔ سننے والے بھی خوش ہوتے رہے ۔ وہ شاید اس کو تبدیلی سمجھتے رہے ۔ لیکن ایک صاحب عقل انسان کو یہ فکر کھاتی رہی کہ عوام پہلے سے زیادہ ساکن ہو گئی ہے کیونکہ عوام سمجھتی ہے ایک قائد ملک کی حالت بہتر کر دے گا لیکن صاحب عقل کو ایک ڈپریشن سی ہونے لگی کہ اس قوم نے اپنا حصہ شاید ایک ووٹ سے پورا کر دیا ہے اب وہ قائد کی آڑ میں اپنا دامن چھپائے بیٹھ گئے ہیں ۔ عوام کا اتنا شکر ضرور ہے اس نے ایک نیا قائد تو ضرور چنا ۔ لیکن شاید ایک صاحب عقل انسان کیلئے یہ بات زیادہ تشویش ناک تھی کہ اب قوم پھر ایک قائد کی آڑ میں اپنا وقت ضائع کرنے کیلئے تیار بیٹھی ہے اور اس کی ساری امیدوں کا محور ان کا قائد ہے باقی اب وہ اپنا اپنا کام کیوں کر کریں اب قائد ہی سب سنھالے گا ۔ اس سے یہ نقصان ہوا بے چارے قائد کو ہر دوسرے ہفتے قومی ٹیلی ویژن کے ذریعے قوم کوخطاب کرنا پڑتا ہے جس سے اس کا دھیان کسی اور طرف بٹ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں کا ایک اور مسئلہ ہے کہ وہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ شاید تبدیلی ایک ہی دن میںآجائے گی ۔ حالانکہ اتنے سالوں کا گند کو صاف ہونے میں وقت لگے گا ۔اس کے علاوہ اپوزیشن اپنا کا م باخوبی سر انجام دے رہی ہے۔ مجلس شوریٰ کے اجلاس سے بائیکاٹ ہو یا حکومت کی بات کی نقطہ چینی وہ اپنا کا م باخوبی سر انجام دے رہی ہے ۔ 
    اللہ اللہ کر کے حکومت وقت کے کچھ دن مکمل ہو گئے ۔ لیکن ان کے انداز سے ان کے ہوم ورک کا با خوبی اندازہ ہوتا ہے۔ ہر حکومت کے ابتدائی دنوں کا رونہ ایک ہی ہے ۔ خزانہ خالی ہے ۔ یہ چاہے جس بھی پارٹی کی حکومت ہو وہ یہ رونا ضرور روتی ہے کہ خزانے خالی ہیں ۔ پھر اپنا بجٹ بڑھا کر آئی ایم ایف کا دورہ کرتی ہے۔ اسے ہم بھیک مانگنا نہیں کہیں گے کیونکہ اگر ہم بھیک مانگنے جاتے تو کی اکانومی کلا س کا ٹکٹ لیتے اوروہاں ٹھریں گے بھی کسی اکانومی کلاس ہوٹل میں ۔ لیکن ہم یہاں دورہ کرنے جاتے ہیں۔ سیاسی داؤ پیچ سے واقف لوگوں کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ آئی ایم ایف کی طرف ضرور جانا پڑے گا ۔ اس کے بعد کچھ لوگوں کو پرانے سیاست دانوں کی قید پر بہت خوشی ہوئی اور کچھ لوگوں نے مگرمچھ کے آنسو بہائے ۔ کچھ لوگوں نے مٹھائیاں بانٹی اور کچھ لوگوں نے اس برے وقت سے نکلنے کیلئے خیرات و صدقات سے کام لیا ۔ یہ تو ہر بندے کی اپنی مرضی ہے ۔ یہی تو سیاست کا حسن ہے ۔ 
    لیکن اصل مدعا یہ ہے کہ قوم کو بھی محنت کی ضرورت ہے۔ بشمول میرے ہر شخص کو اپنے کام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن قوم کو اپنا کام پوری ایمان داری سے کرنا چاہیے ۔ 
    سر سید احمد خان نے کیا خوب کہا تھا 
    قوم ملک کو آگے لے کر چلتی ہے لیڈر اس قوم کو راستہ دکھاتا ہےْ ۔ اگر قوم اپنے کام کو دل لگی سے پورا کرے گی تب ہی ملک کی حالت اور قسمت بدلے گی۔ کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ 
    خلاصہ 
    جیسی قوم ویسے حکمران ۔ 
    دعا ہے کہ اب ہم اپنے مقصد کی طرف قومی جدوجہد سے آگے بڑھیں اور اس ملک کا قرض اس کا نام بلند کر کے اداکر سکیں ۔ 
    از                                                                                                                              
    محمد عبداللہ ۔