کتاب سے ہٹ کے ۔۔۔۔۔

  • اگر ہم اپنے بچپن کی کتابوں پر نظر ڈورائیں تو ہمیں یاد آئے گا کہ سکول کی کتابوں میں ماحول کو صاف رکھنے اور ماحولیاتی تبدیلی پر ہر جماعت میں ایک سبق موجود تھا ۔ اور ہم بھی اس سبق کو رٹا لگا کر امتحان میں لکھ آتے تھے ۔ اور سچ پوچھیں تو کسی کو اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا تھا ۔ لیکن جیسے جیسے ہم سمجھدار ہوتے ہیں اور معاشرے کے ایک ذمہ دار شہری بنے لگے تو ہمیں تھوڑا تھوڑا اسکا اندازہ ہونے لگا ۔ لیکن ہم نے پھر بھی اس کی اہمیت کا احساس نہیں کیا ۔ اور بحثیت ایک ذمہ دار شہری ہمیں اس وقت اسکی اہمیت سمجھ آئی جب پانی سر سے اوپر نکل گیا ۔ اب ہم اس نازک صورتحال سے پریشان ہیں۔ اب ہم اپنی زیادتیوں کا ازالہ کرنے میں کافی حد تک سنجیدہ نظر آرہے ہیں ۔ لیکن آئیں ایک جائزہ لیتے ہیں کہ ہم نے ماحول کوکس قدر برباد کر دیا ہے ۔
    انسان نے ترقی کے نام پر درختوں کو کاٹ دیا اور ان کی جگہ بڑی بڑی فیکٹریاں آباد کیں ۔ اور ان فیکٹریوں کو ہر طرح کی گندگی کی کھلی اجازت دی گئی ۔ جیسے ضرب المثل ہے ’’ قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے ‘‘۔ اسی طرح آلودگی کا ایک ایک قطرہ ہمارے لیے زہر بنتا گیا ۔اور ہم اس سے خوش ہوتے رہے کہ ترقی پروان چڑھ رہی ہے ۔ اس کے علاوہ ہمیں شاید درجہ حرارت کا بھی احساس نہ ہوا ۔ جو کہ سب کے سامنے کھلی کتاب تھا جیسے لوگوں نے درختوں کی جگہ اب ’’اے سی ‘‘ لگانا شروع کر دیے ۔ ٹھنڈے پانی کیلئے مٹکے کی جگہ فریج کا استعمال بڑھ گیا ۔ اور باقی رہی سہی کسر گاڑیوں کے دھویں نے نکال دی ۔ جونکہ انسان بڑا لالچی واقع ہوا ہے اس لیے اسے پھر بھی سکون نہ آیا ۔ گاؤں کو چھوڑ کر ہر شخص روزی کی تلاش میں شہر نکل آیا اور شہر کو گنجان آباد کر دیا جس سے اور مسائل پیدا ہو گئے ۔ اور یہاں گندگی پھیلا کر اور میٹھے پانی کو تباہ کردیا ۔ اس کے بعد بھی ہم ترقی کی آڑ میں خود پر ظلم کرتے رہے جیسے پہاڑوں کو گنجان آباد کرتے گئے اور پہاڑوں کو کاٹتے گئے اور اس طرح ہم نے وہاں کے جنگل بھی آباد کر دیے اور وہاں بھی گندگی کے پہاڑ لگا دیے ۔ اس سے پہاڑوں کا درجہ حرارت پروان چڑھ گیا اور گلیشیر ٹوٹنا شروع ہو گئے اور پھر ہمیں سیلاب جیسے عذاب سے دو چار ہونا پڑا اور پھر اس درجہ حرارت میں یک دم تبدیلی کی وجہ سے ماحول اس قدر تباہ کن ہوگیا کہ کبھی زلزلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور کبھی طوفانوں کا ۔ درخت کاٹنے سے بارشوں میں کمی واقع ہو گئی اور پانی کو سٹور بھی نہ کر سکے اب یہ حالت زار ہے کہ ہم پانی جیسی نعمت سے محروم ہو رہے ہیں ۔ 
    ہم نے بحثیت قوم جو نقصان کرنا تھا کر دیا اب اس نقصان کی تلافی کیسے ممکن ہے اس پر غور کرتے ہیں ۔
    سب سے پہلے ہمیں اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لانی پڑے گی ۔ ان رویوں سے اجتناب کرنا پڑے گا جن سے ہم صرف اپنا ذاتی مفاد کو ترجع دیں ۔ اور اس کے بعد ہمیں سب سے پہلے ان زاویوں کو سب سے زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت ہے جن سے ہم نے یہ تباہی شروع کی جیسے سب سے پہلے درخت کاٹے اب ہمیں درخت لگانے چاہئیں ۔ اور شہروں کو گنجان آباد کرنے سے اجتناب کرنا ہوگا ۔ اور کلوروفلورو کاربن سے اجتناب کرنا ہوگا ۔ اس کے علاوہ پہاڑوں کو کاٹنے سے اجتناب کرنا ہوگا ۔اور پہاڑوں کو مزید گنجان آباد بنانے سے پرہیز کرنا ہوگا۔ اس کے فیکٹریوں کے قوانین کو سخت بنانا ہوگا اور دھویں کی ایک مقدار کا تعین کرنا ہوگا اور فیکٹریاں ان علاقوں میں لگانا ہوں گی جو شہر سے دور ہو اور آلودگی کے خاتمے کیلئے ہر شہری کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تب جا کر ہم ماحولیاتی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلی سے نجات حاصل کر سکتے ہیں ۔