انتشار یا حقوق کی جنگ ۔۔۔۔

  • انتشار یا حقوق کی جنگ ۔۔۔۔
    پاکستان میں گزشتہ چند سالوں میں دھرنوں کا رواج زوروشور پر ہے ۔ اس نظام نے جہاں لوگوں میں سیاسی شعور کا کا م کیا وہاں کافی شر پسند عناصر کو انتشار پھیلانے کا نیا طریقہ بتایا ۔ اس کا رواج بڑے درجے پر پاکستان کی مشہور اسلامی و سیاسی شخصیت علامہ طاہر القادری صاحب کی جماعت پاکستان عوامی تحریک نے ڈی چوک پر شروع کیا ۔ ا س وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور رحمان ملک اس کے انٹیریر منسٹر تھے ۔ دھرنے میں لوگ کفن تک ساتھ پہن کر آئے تھے ۔ سپریم کورٹ کی عمارت کے سامنے لوگوں کے بستر اور کپڑے بکھرے نظر آتے تھے ۔ا ور اس دھرنے کے دوران وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل کردیا گیا ۔ اور اس کے بعد بڑی مشکل سے حکومت کے ساتھ معمالات طے پائے ۔ اور دھرنا اپنے اختتام پر پہنچا۔ لیکن اس دھرنے سے ملک کو کافی مالی مشکلات کا سامنہ کرنا پڑا ۔ حکومت کے مطابق چائنہ کے صدر نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا جوکہ اس دھرنے کی وجہ سے متاثر ہوا ۔ اور وہ پاکستان نہیں آسکے ۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کے مقامی لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنہ تھا ۔ 
    دوسرا دھرنا پاکستان کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے 2014 میں الیکشن کے نتائج پر دھاندلی کے الزام کے بنیاد پر کیا ۔ یہ دھرنا ملک کی تاریخ کا طویل ترین دھرنا تھا ۔ اور اس دھرنے نے ملک میں ایک طرف سیاسی شعور اور سیاسی حقوق کو اجاگر کیا دوسری طرف ملک کو نا قابل طلافی نقصان پہنچایا ۔ اسلام آباد کے مقامی اس سے بہت حد تک متاثر ہوئے ۔ اور کاروبار زندگی کافی حد تک متاثر کیا ۔ اور اس دھرنے میں پاکستان تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی نے نہ صرف دھرنے سے اختلاف کیا بلکہ اپنی پارٹی سے بھی استعفیٰ دیا ۔ اس کے بعد طاہر القادری نے اس دھرنے میں اپنی جماعت کے ساتھ شرکت کی اور کچھ عرصے بعد پی ٹی وی کی عمارت پر حملہ کیا اور اس حملے سے نہ صرف عمران خان بلکہ طاہر القادری نے بھی ان حملہ آوروں کو اپنی پارٹی کے لوگ ماننے سے انکا ر کر دیا ۔ اس دھرنے میں عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا بھی اعلان کیا ۔ یہ دھرنا تقریبا تین ماہ جاری رہا اور آرمی پبلک اسکول کے حملے کے نتیجے میں اس دھرنے کو ختم کیا گیا ۔ اس دھرنے کے نتیجے میں ایک طرف لوگوں میں سیاسی شعور ایک حد تک بیدار ہوا دوسری طرف ریاستی میڈیا کی عمارت پر حملہ کیا گیا اور شر پسند عناصر نے اپنے ناپاک عزائم سے توڑ پھوڑ کی ۔ 
    تیسرا بڑا دھرنا اسلام آباد کے مقام فیض آباد پر تحریک لبیک پاکستان کی طرف سے کیا گیا ۔ اس دھرنے میں اسلام کی بنیاد پر لوگوں کو دعوت دی گئی اور یہ دھرنا سب سے خطرناک ثابت ہوا ۔ مقاصد بے شک اس دھرنے کے حق پر ہوں گے لیکن اس دھرنے سے لوگوں کو اور ملکی معیشت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا گیا ۔ اس دھرنے کو ختم کرانے میں حکومت کی رٹ ناکام ہوگئی ۔ اورسارے ملک میں بالخصوص اسلام آباد اور راولپنڈی میں خوف و ہراس پھیل گیا اور ہر طرف افرا تفری کا عالم تھا اور پولیس کی ویگنیں اور بسیں اور کافی سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا ۔ اور پھر بڑی مشکل سے معملات طے پائے ۔ اس دھرنے نے نہ صرف ملکی املاک کو نقصان پہنچایا بلکہ معیشت کو بھی کفی نقصان پہنچایا ۔ 
    ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ نئی حکومت کے دور میں تحریک لبیک پاکستان نے دوبارہ لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنا شروع کر دیا گیا اور نہ صرف لاہور میں بلکہ پورے پاکستان میں لوگ اس سے متاثر ہوئے ۔ اور لوگوں کو نقصان پہنچایا گیا ۔ موٹر وے بند کر دی گئی ۔ موٹر وے پر لوگوں کی گاڑیوں کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا۔ اور اس دھرنے کے قائد بار بار کہتے رہے کہ ان شر پسند عناصر سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ خیر بہت مشکل سے حکومت اور دھرنے کے قائدین میں معاملات طے پا گئے ۔ اور پھر حکومت نے شر پسند عناصر کو انکے انجام پہنچانے کیلئے ان کو پکڑنا شروع کر دیا ہے ۔ 
    دھرنے ملکی معیشت کیلئے بہت محلق ثابت ہوتے ہیں ۔ اور ان دھرنوں سے شر پسند عناصر اپنے مفاد حاصل کرتے ہیں اور ملک میں خوف وہراس پھیلاتے ہیں۔ ان کے ناپاک عزائم دھرنوں کی آڑ میں لوگوں کیلئے مصیبت کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ ا س لیے ہمیں ایسے اقدام سے دور رہنا چاہیئے اور اسلام کے اصولوں کے مطابق ملک کو ترقی کی طرف رواں دواں کرنا چاہیے۔ اور اپنے حقوق کیلئے ضرور نکلنا چاہیئے لیکن پر امن طریقے سے ۔