مزارت وتاریخی عمارات کا احوال ؛۔

  • بر صغیر پاک وہند میں کفر کا راج ہوا کرتا تھا ۔ اس کے بعد مسلمان حکمران جب یہاں فاتح بن کر یہاں آئے تو ان کی اچھی سیرت اور اچھے سلوک سے بر صغیر پاک وہند میں اسلام پھیلنا شروع ہوگیا اور سندھ میں سب سے پہلے اسلام پھیلا اور اس کے بعد صوفیاء اور اولیاء کرام نے اس کو مزید پھیلایا ۔ اور اس طرح بر صغیر پاک وہند کا بڑا حصہ مسلمان ہو گیا ۔ پھر جیسے جیسے اولیاء اور صوفیاء کرام اس دنیا سے کوچ کرتے گئے ۔ ویسے ویسے ان کے مزار بنتے گئے ۔ لیکن ہمارے کچھ ناخواندہ طبقے نے ان مزارات پر بدعت کا رواج قائم کردیا ۔ اسلام کے اصولوں کو نظر انداز کرکے من گھڑت رسومات کا رواج شروع ہوگیا ۔ اس سے یہ نقصان ہوا کہ لوگوں نے ان لوگوں کے بھی مزار تعمیر کر دیے جن کا اسلام سے دور دور تک تعلق نہ تھا ۔ اور چند مطلب پرست گروہوں نے اپنی روزی روٹی اور لوگوں پر اپنا اثر قائم کرنے کیلئے جعلی مزار بنا کر معصوم لوگوں کو گمراہ کیا ۔ ان کی نکالی گئی نئی بدعتوں اور رسم ورواج سے اسلام کی ساخت کو کافی نقصان ہوا ۔ 
    میرا کافی بار مزارا ت پر جانا ہوا اور میں وہاں کے ماحول سے کافی ناامید لوٹا ۔ ان مزارات پر آپ کو نشے سے دھت لوگ ملیں گے جو اپنی من گھڑت باتوں سے لوگوں کو گمراہ کرتے نظر آئیں گے ۔ میں نے ایک بار گولڑہ شریف کے پیر جناب نصیر الدیں نصیر صاحب کی تقریر سنی ،اس تقریر میں وہ اسی نقطے پر نظر ڈال رہے تھے کہ آج کے پیروں نے اپنے آباؤاجداد کے مزارات کو اپنی ATM MACHINE بنا لیا ہے ۔ اور یہ بات بالکل میرے دل پر لگی اور ہمارے صوفیاء ، اولیاء اور اللہ کے جتنے بھی نیک بندوں کے مزارات ہیں وہاں کوئی صیحح طرح آپ کو ان کی کرامات نہیں بتائے گا بلکہ ہر کوئی اپنی ایک نئی کہانی کا آغاز کرے گا اور اگر غور سے ان کا جائزہ لیں ۔ تو انھوں نے کوئی نہ کوئی سستا نشہ کیا ہوگا ۔ چند ایک مہذب لوگ آپ کو ملیں گے اور وہ اگر آپ کی قسمت اچھی ہوئی تو ۔ 
    اسی طرح جب آپ تاریخی عمارات دیکھنے جاتے ہیں وہاں بھی آ پ کو کوئی خاص معلومات نہیں ملتی ہیں۔ جولوگ امیر ہیں وہ ایک گائیڈ بک کرا لیتے ہیں اور ان سے ساری معمولات لے لیتے ہیں ۔ اب آیا وہ معلومات در ست بھی ہے یہ نہیں خدا بہتر جانتا ہے ۔ آپ جاتے ہیں وہاں اور عمارات دیکھ کر واپس آجاتے ہیں اور ان کی تاریایخی اہمیت جاننے کیلئے آپ صرف اپنی نصابی کتابوں میں چند صفحے پڑھ لیتے ہیں۔ جوکہ سر سے گزر جاتا ہے ۔ 
    لیکن یہاں اس حقیقت کو آشکار کرنے کا صرف ایک ہی مقصد ہے وہ یہ کہ ہمارے ان صوفیاء وولی حضرات کے مزارات بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ ان کے مزار پر نشے سے لت بھت لوگوں کی بجائے کتب گھر تعمیر کیے جائیں تا کہ عام عوام ان سے فائدہ اٹھا سکے اور ان کی اصل کرامات کا اندازہ ہو سکے ۔ اسی طرح تاریخی عمارات پر بھی کتب گھر تعمیر کیے جائیں تاکہ وہاں ان عمارتوں کی تاریخوں کا اندازہ ہو سکے ۔ اور اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ نشائی لوگوں سے جان چھوٹ جائے گی ۔ اور یہ مزارات حکومت کی توجہ کا مرکز بھی بنے رہیں گے ۔ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان نے یہ کا باخوبی انجام دیا ہے اور اردو اور فارسی کے مشہور شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کے مزار پر ایک کتب گھر تعمیر کیا ہے جس سے عام عوام مستفید ہو رہی ہے ۔ ہمیں بھی ایسے اقدام کی ضرورت ہے۔

0 comments