تحریک پاکستان میں اردو کا کردار

  • نرم لہجے اور خوبصورت شیریں  لفظوں کی زبان اردو جو آج پاکستان کی قومی زبان ہے برسوں سے برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی منفرد شناخت اور پہچان کی وجہ بھی تھی۔ تحریک پاکستان اور اردو زبان کا تعلق آپس میں ایسا ہی ہے جیسے آنکھ اور روشنی کا ہے دونوں ہی ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم تھیں اور دونوں کے سامنے رکاوٹوں کے بلند و بالا پہاڑ کھڑے ہوئے تھے مگر جہد مسلسل اور نیک نیتی کے سفر نے بالآخر پاکستان اور اردو کو منزل مقصود تک پہنچا ہی دیا۔

    اردو زبان جس کا خمیر مسلمانوں کی آمد سے برصغیر کی بولیوں اور مسلمانوں کی زبانوں عربی، تُرکی اور فارسی کے امتزاج سے تیار ہوا تھا اور مسلمانوں کے عہد حکومت میں ہی اس زبان نے پرورش پائی، اپنے ارتقائی سفر کو طے کیا اور مسلمانوں کے دورِ سلطنت میں ہی برصغیر کی مقبول ترین زبان بن کر ابھری اور مسلمانوں کی شناخت بن گئی۔

    برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں کی انیسویں اور بیسویں صدی میں زبان اردو ہی تھی کیونکہ برطانوی سامراج کی آمد سے فارسی زبان کا خاتمہ ہو چکا تھا، اب مسلمان اپنی آواز جس میں زبان میں بلند کر رہے تھے وہ اردو ہی تھی جو عوام او ر خواص میں مقبول تھی اور یہ ہی بات ہندوں کو حزم نہیں ہو رہی تھی۔ اردو زبان کے خلاف  محاذ آرائی کا آغاز بنارس سے ہوا پھر الٰہ آباد میں ایک مجلس قائم کی گئی، رفتہ رفتہ اس کیلیے کمیٹیاں، مجلسیں اور سبھائیں مختلف ناموں سے قائم ہو گئیں، اس میدان میں بالخصوص تعلیم یافتہ ہندو طبقہ تھا۔ اس وجہ سے کم فہم اور تنگ نظر ہندوؤں نے اس کو مسلمانوں کی زبان کَہہ کر اس کے مقابلے میں ہندی کو لاکھڑا کیا، تاریخ پاکستان کے طالب علم جانتے ہیں کہ قیام پاکستان کی بظاہر وجوہات میں اردو ہندی تنازعہ بھی ایک اہم اور بنیادی وجہ تھی۔

    اس سازش کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے جو پہلا قدم اٹھایا گیا وہ "اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن” کا قیام تھا-اس کے علاوہ ایک اور اہم ادارہ جس نے اس بے سر و سامانی میں اردو زبان کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا وہ "انجمن ترقی اردو” تھا جو جنوری 1902ء میں قائم ہوئی۔ تحریک علی گڑھ سے وابستہ اہل قلم نے تحفظ زبان اردو میں اہم کردار ادا کیا- اکابرینِ تحریک پاکستان نے اردو زبان کی حفاظت دو قومی نظریے کی شناخت کے طور پر کی، آہستہ آہستہ ہندوؤں کو واضح ہو گیا کہ مسلمان برصغیر کی منفرد شناخت رکھنے والی قوم ہے ان کی تہذیب اور ثقافت کو کبھی پامال نہیں کیا جاسکتا۔

    وقت کے ساتھ ساتھ اُردو ہندی تنازعہ لسانی سے بڑھ کر اب سیاسی نوعیت اختیار کر چکا تھا،جہاں پر مسلمان دو قومی نظریہ کی بات کرتے تھے وہاں اُردو زبان کا تحفظ لازمی جزو بن چکا تھا۔

    بالآخر برصغیر میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کا قیام 1906ء میں ان ہی لوگوں کے ہاتھوں عمل میں آیا جو دفاعِ اردو زبان کے لیے 4دہائیوں سے لڑ رہے تھے جن میں نمائندہ نام نواب وقار الملک،نواب محسن الملک، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان وغیرہ کے ہیں۔ اُردو زبان کا تحریکِ پاکستان میں حصہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اردو زبان اور دو قومی نظریہ لازم و ملزوم تھے تو غلط نہ ہوگا۔

    آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی قومی زبان کے تحفظ اور ترقی کے لیے ممکنہ وسائل کو بروئے کار لائیں اور آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 251 پر عمل کرتے ہوئے اردو کوپاکستان میں بطورسرکاری زبان لاگو کریں۔