Afzal Khan
پاکستان
کے تعلیمی نظام کے مسائل
(قسط: 3)
پاکستان کے تعلیمی نظام
کے مسائلکا حل:
تعلیم کے ان سب مسائل کا "حل"
پاکستان کے آئین میں واضع طور پر موجود ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آئین صرف تعلیم کے
مسئلے کا حل نہیں بلکہ تمام ہی بنیادی انسانی ضروریات، [جن میں تعلیم چوتھے نمبر
پر ہے، پہلے پر نہیں،] کا ایک پیکیج کی
شکل میں حل دیتا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ہماری مڈل کلاس کی تعلیم یافتہ دانش کو
آئین کے ذکر اور انسانوں کی بنیادی ضروریات کے حل سے چڑ ہے۔
1۔ 100٪ شرحِ خواندگی کا حصول ایک خواب
ہے،ہربچے کو اسکول لانا مشکل ہے،ہرچندکلومیٹرکےبعد بچے،اساتذہ اور والدین کے مسائل
مختلف ہیں،بچے کے سلسلے میں ہرذمہ داری استاد پر ڈالنا،ہر روزسو فیصد اساتذہ کا
حاضر ہونا مشکل ہے۔۔۔ان حقائق کو تسلیم کیا جائے۔
2۔ہر بچے کے لیے گھر سے قریب ترین اسکول کا تصورختم کیا جائے تاکہ اسے/والدین+ علم
کی اہمیت کا احساس ہو۔5 کلومیٹر کے ایریا میں صرف ایک گورنمنٹ پرائمری اسکول فار
بوائز اینڈگرلز،دویونین کونسلز میں ایک ایک گورنمنٹ ایلیمنٹری اسکولز،ہر تحصیل میں
ایک ایک بوائز اینڈگرلز اسکول اور ہر ضلع کی سطح پر ایک ایک بوائز اور گرلز کالج
،ڈویژن کی سطح پر میڈیکل/ڈینٹل کالجز،ایک یونیورسٹی ہو۔آبادی کے تناسب سے بھی اس
کلیے کو اپلائی کیا جا کستا ہے۔نجی تعلیمی ادارے ختم صرف پرائمری یا ایلیمنٹری کی
سطح تک ہوں۔اوپر ختم ہوں۔یہ اس لیے کہ تعلیم جتنی عام ہو رہی ہے اتنا اس کی
قدراورنتائج کم تر ہو رہے ہیں۔
3۔ تقرری/تبادلے/سزاجزا میں سیاسی مداخلت یک سر ختم کی جائے۔
4۔ کنٹریکٹ پر اساتذہ کی بھرتی فوری ختم کی جائے۔
5۔طلبا کے لیے جسمانی سزا کا متبادل دیا جائے کیونکہ بچے بالکل بے خوف اور والدین
بھی بے بس ہیں۔
6۔ میڈیا پر کم از کم 50٪ وقت بچوں،نوجوانوں کے تعلیمی/جسمانی کھیلوں کے لیے وقف
کیا جائے۔
7۔ تعلیمی اداروں میں اجتماعی اسمبلی/تقریبات کی فوری اجازت دی جائے۔ہم تقریباً 15
سالوں سے بچوں کا بچپن چھینتے آرہے ہیں۔ انھیں وہ بچپن لوٹائیں۔
8۔ سال بھرکی نصابی اور غیرنصابی سرگرمیوں کاشیڈول پہلے سے ہی طے کیا جائے۔
9۔اساتذہ کوسوائے تدریس کے باقی تمام کاموں سے استثناء دیا جائے۔
10۔ ایک مشترکہ تعلیمی نظام کی بنیاد کی طرف قدم اٹھایا جائے جس میں ہر نظام تعلیم
کی خوبیوں کا اعتراف کیا گیا ہو اور اس کی خامیوں کی نشاندہی کر کے ان کا حل بتایا
گیا ہو۔
11۔ دینی علماء اور سیکولر دانشوروں پر مشتمل ایک ایسی ایجوکیشنل ٹیم تیارکی جائے
جو نظام تعلیم کے حوالے سے پہلے سے فعال اداروں کی فعالیت و کارکردگی کا جائزہ لے
کر بے لاگ رپورٹ لکھے اورپھر ان تعلیمی پروگراموں کے اجراء کے لئے منصوبہ بندی کرے
جن کے اجراء کرنے میں یہ ادارے ناکام رہے ہیں۔ جن شعبوں کے ماہرین کی ملک کو
اشدضرورت ہے، ان شعبوں کی ترقی و ترویج کا عمل ہنگامی بنیادوں پر کیا جائے۔
12۔ ملت کے مختلف ماہر ین اقتصادیات کو جمع کر کے تعلیمیاداروں کے لئے فنانشل
سپورٹ فنڈ کاپروگرام بنایا جائے تاکہ کوئی بھی ناخواندہ نہ رہ سکے۔ اس سلسلے میں
اگر تعلیمی ٹیکس کا نفاذ بھی کرنا پڑے تو اس سے گریز نہ کیا جائے۔
13۔ اساتذہ کے انتخاب اور ان کی علمی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے ایک ٹھوس لائحہ
عمل بنایاجائے۔ جس میں ان کو تحقیقی کام کا پابند کیا جائے۔ مگر یہ سب کچھ اسی وقت
ممکن ہوگا جب ایک استاد کل کی فکر سے آزاد ہو گا۔
14۔ تعلیمی نظام کو اپ ڈیٹ کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام سے ہم آہنگ تربیتی نظام
بھی نصاب میں شامل کیا جائے۔
15۔ پاکستان میں ملکی سطح پر حقیقی معنوںمیں بین الاقوامی معیار کے اداروں کی
تشکیل کے لئے لائحہ عمل بنایا جائے۔ س۔ پاکستان کے دور افتادہ علاقوں میں جہاں لوگ
بچوں کو ابتدائی تعلیم دلوانے سے بھی قاصر ہیں وہاں پر بھی ایسےادارے ترجیحی
بنیادوں پر قائم کئے جائیں جو دینی و بنیادی تعلیم کو پہلے مرحلے میں مقدمات کی حد
تک فراہم کرسکتے ہوں۔
16۔ دینی مدارس میں دینی و دنیاوی تعلیم کی تقسیم ختم کر کے کالج اور یونیورسٹی کے
درمیان ایک حسین امتزاج قائم کرنے کے لئے سنجیدہ طور پر غور و فکر کی جائے۔
17۔ مدارس کے اندر علوم کو عملی طور پر قابل استفادہ بنانے کے لئے ریسرچ سنٹرز کا
قیام عمل میں لایا جائے جو مندرجہ ذیل شعبوں پر کام کریں:
۱۔ ترجمہ ۲۔
تصنیف ۳۔ تالیف ۴۔
تحقیق ۵۔ تبلیغ ۶۔
تقریر۷۔ تحریر ۸۔
تکلم [اردو،فارسی، عربی، انگلش]۔ ۹۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی ۱۰۔تدریس
۱۱۔مدیریت ۱۲۔علوم
سیاسی
واضح رہے کہ یہ فہرست اور ممکنہ حل ناکافی ہیں۔ ان سب نکات پر ایک اتفاق رائے کے
بعد ہی عمل ہو سکتا ہے۔ اور یہ اتفاق رائے جتنا جلد ہو، اتنا ہی اچھا ہے۔ ورنہ تو اتنی لمبی چوڑی گفتگو میں ایک بار بھی
ملک کے آئین اور اس کی عملی طور پر معطل فلاحی شقوں [مثلاً شق ۳۷/۳۸] کا سرے سے ذکر نہ آئے، یہ بات ناقابل فہم ہے۔
میں مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا کہ حساس دوست ناراض بھی ہوسکتے ہیں۔ اور یہ کہہ
کریہیں خاموشی اختیار کرتا ہوں کہ:
؎ ذکر
"اس پری وش کا"، اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر، تھا جو راز داں اپنا