پاکستانی اور انڈین سنیما

  • انیس سو تیس کے بعد میں باقاعدہ ہندی فلم انڈسٹری کی بنیاد پڑی۔

     فلم "عالم آرا" کی کامیابی کے برصغیر کے بڑوں نے ممبئی کی رخ کیا۔ جس میں لاہور سے نورجہاں، کے ایل سہگل، دیوآنند، دلیپ کمار اور روشن آرا بائی شامل ہیں۔ اسی طرح سٹیج ڈراموں کے لیے مشہور شہر کلکتہ سے بھی آرٹسٹوں نے ممبئی منتقل ہونا شروع کردیا۔ اسی زمانے میں عورت، گل بکوکی جیسی ہٹ فلمیں بنائی جانے لگی۔ فلم عالم آرا چونکہ ایک میوزکل فلم تھی اس لیے برصغیر کی عوام فلمی ذائقہ پتا چل چکا تھا۔ اسی لیے بعد میں آنے والی فلموں میں نوشاد، خواجہ خورشید انور اور بابا چشتی جیسے موسیقاروں نے سیمی کاسیکل دھنوں کو ترتیب دیا اور فلمیں دنیا کو ایک کامیاب منزل تک پہنچا دیا۔ 

     انیس سو چالیس میں فلم انڈسٹری خوب پھلی پھولی اور کامیابی کی منازل طے کرتی گئی۔ اس زمانے میں دنیا تو جنگ عظیم کے چکر میں تھی اور اس کے کچھ اثرات برصغیر تک بھی پہنچے مگر اسی زمانے میں تقسیم ہند کی تحریکیں بھی اپنے پورے عروج پر تھی۔ اسی لیے اس دور کی فلمیں بھی معاشرتی مسائل کی خوب عکاسی کرتیں تھیں۔ کھلاڑی، خاندان، بڑی ماں ، زینت اس زمانے کی کامیاب ترین فلمیں ہیں۔

     

    تقسیم ہند نے برصغیر کی فلم انڈسٹری کو بھی دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک ممبئی کے نام سے مشروط ہوکر بالی وڈ کہلائی۔ دوسرے لاہور کی نسبت سے لالی وڈ۔ بالی وڈ چونکہ پہلے ہی اس قابل بہت حد تک مضبوط بنیاد رکھ چکا تھا مگر لالی وڈ کے لیے پہلے ڈیڑھ سال تک کچھ نہ ہو سکا۔ پہلی فلم 1949 میں تیری یاد کے نام سے بنی جو مقبولیت تو حاصل نہ کر سکی مگر اس نے ایک نئی انڈسٹری کی بنیاد رکھ دی۔ اس فلم میں ناصر خان نے ہیرو کا کردار نبھایا جو معروف اداکار دلیپ کمار کے بھائی تھے۔ اسی زمانے میں تقسیم سے پہلے انڈسٹری کو کئی ہٹ فلمیں دینے والے شوکت حسین رضوی اپنی شریک حیات اور برصغیر کی اس زمانے کی معروف اداکارہ اور گلوکارہ نور جہاں ملکہ ترنم کے ساتھ پاکستان منتقل ہوئے۔ ان دونوں نے مل کر راولپنڈی میں شاہ نور اسٹوڈیو بنایا۔ اور اس نو مولود انڈسٹری کو آگے بڑھایا۔ پاکستان میں بعد میں کئی کامیاب فلمیں بنائی گئی جن میں چھو منتر، جگنو، کوئل، ہیر رانجھا، امراو جان ادا وغیرہ بنتی رہیں۔ اسی طرح بالی وڈ بھی ترقی کی منازل طے کرتا رہا اور دو بگہا زمین، انارکلی اور امراو جان جیسی سپر ہٹ بنتی ہیں۔ ان فلموں میں میوزک کافی حد تک ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ کہانی چاہے ایک طرح کی مگر فلم مجموعی طور پر ایک دوسرے سے جدا تھی۔ وہاں نوشاد، او پی نیر، ایس ڈی برمن جو دھنیں بنا رہے تھی وہ مکمل فلمی اور جدید انداز کی تھیں مگر ہمارے ہاں جدید انداز بھی تھا مگر اس کا ڈھنگ سیمی کلاسیکل تھا۔ خواجہ خورشید انور، ناصر بزمی اور وجاہت اطرے اس زمانے کے مقبول موسیقار تھے۔

     

    مگر وقت کے ساتھ ساتھ پاکستانی انڈسٹری اپنی شناخت گم کرکے بالی وڈ کی کہانی اور میوزک کے انداز سے متاثر ہوتی گئی اور یہ انڈسٹری زوال کا شکار ہوتی گئی۔ دوسری طرف بالی پاکستانی اور ہالی وڈ کی انداز کو اپنا کر مزید بلندیوں پر پہنچنے لگا۔ کرتے کرتے ایک وقت ایسا بھی آیا جب پاکستان کے سب بڑے ستارے یا تو دنیا چھوڑ چکے تھے یا انڈسٹری کو خیرآباد کہہ چکے تھے۔ وقت کی اس چال کو یہ انڈسٹری برداشت نہ کرسکی اور مٹ گئی اور ایسا وقت آیا کہ یہاں ایک بھی فلم نہ بنی۔ نئی صدی اس ملک کی فلم انڈسٹری کے لئے اچھی ثابت نہ ہوئی۔ مگر اب حالات دوبارہ بدلنے لگے ہیں فلمیں بن رہی ہیں گو کہ معیار وہ نہیں مگر کم سے کم بن تو رہی ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ یہ انڈسٹری ایک نئے انداز سے اٹھے گی اور برصغیر کی فلمی تاریخ ایک بار پھر بدل جائے گی۔

     

    ہمیں یہ بات اکثر سننے کو ملتی ہے کہ پاکستانی سینما کی بحالی کا عمل شروع ہوگیا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت کا کھویا ہوا سُنہری دور واپس آرہا ہے۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے؟ اسے عملی طور پر جاننے کے لیے رواں سال کے باکس آفس پر ایک نظر ڈالنی ہوگی اور پاکستانی سینما کی تخلیقی کارکردگی کو جاننا ہوگا، جس کے بعد ہی یہ بہتر طور پر سمجھا جاسکتا ہے کہ پاکستانی سینما کی موجودہ صورتحال کیا ہے اور کیا واقعی کوئی بحالی ہورہی ہے، یا صرف بات زبانی جمع خرچ تک محدود ہے۔ 

    اکیسویں ویں صدی کے آغاز سے لے کر رواں سال تک، پاکستانی فلموں کی مجموعی صورتحال کا اندازہ لگایا جائے، تو اب تک سینکڑوں فلمیں بن چکی ہیں، مگر کامیاب ہونے والی فلموں کا تناسب صرف 10 فیصد ہے۔ سال 2000ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’یہ دل آپ کا ہوا‘ نے 20 کروڑ کمائے، یہ اس وقت کی سب سے بہترین فلم تھی۔ اس فلم کے بعد جن فلموں کو باکس آفس پر زیادہ کامیابی حاصل ہوئی، ان میں 7 سال بعد 2007ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’خدا کے لیے‘، پھر 2011ء میں ’بول‘ 2013ء میں ’وار‘ 2014ء میں ’نامعلوم افراد‘، 2015ء میں ’جوانی پھر نہیں آنی‘، 2016ء میں ’ایکٹر ان لا‘ شامل ہیں۔ یہ وہ چند فلمیں ہیں، جن کی وجہ سے ان 17 برسوں کے دوران فلم سازوں کو معاشی طور پر بھی کچھ مضبوطی ملی۔اس تناظر میں پاکستانی سینما کی واپسی یا بحالی کی بات کرنا قبل از وقت ہے۔ پاکستانی فلم سازوں کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے، عہدِ حاضر کے سینما میں جہاں فلم بینوں کو دنیا بھر کی فلمیں دیکھنے کے لیے میسر ہیں، وہاں آپ انہیں زیادہ دیر دھوکے میں نہیں رکھ سکتے، اس لیے معیاری اور تخلیقی فلمیں بنانے کی ضرورت ہے اور کہانی نویسی پر بھی کام کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یوں نہ صرف پاکستانی فلم بینوں کو تخلیقی تسکین مل سکے بلکہ عوامی شعور کے فروغ میں بھی پاکستانی سینما اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کرسکے۔ 

    پاکستانی چینلوں نے ایک وطیرہ بنا لیا ہے کہ فلم کوئی بھی بنائے، یہ نہ صرف میڈیا پارٹنر کے طور پر اس منصوبے میں شامل ہوجاتے ہیں بلکہ اس کو اپنی فلم قرار دے دیتے ہیں، اس مصنوعی رویے سے کچھ نہیں ہوگا۔ فلمی صنعت کو حقیقی معنوں میں فروغ دینے کے لیے میڈیا ہاؤسز کو بھی عملی طور پر تخلیقی اور معاشی عمل میں شریک ہونا پڑے گا، صرف ٹھپہ لگا لینے سے یہ فلمیں ان کی نہیں ہو جائیں گی۔ یہ طریقہ واردات صرف آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، جس کی فلم سازوں کو حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ 

    آخر میں اہم بات یہ کہ پاکستانی سینما کی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے، مگر یہ فلم سازوں کی ایمانداری، محنت اور جنون پر منحصر ہے، وہ تخلیق اور دیوانگی کے راستے پر کہاں تک جا سکتے ہیں۔

0 comments