فلم اور آرٹ

  • ہر ملک کا اپنا آرٹ ہے۔ شاید جو دوسروں کا آرٹ کہلاتا ہے وہ ہمارہ آرٹ نہیں ہے۔کیا ہم کبھی سمجھ سکے ہیں کہ آرٹ کیا ہے؟ شاید نہیں ۔ سنہرے دور کے سنیما کی گلیوں میں جانا اور بڑے پردے پر فلمیں دیکھنا تب بھی عام تھا اور آج بھی عام ہے ۔اج فلم اور آرٹ کے بیچ فرق بہت بڑھ گئی یے۔ آج کل آئیٹم نمبر کو آرٹ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور لوگوں کا اس بات پر قائل ہو جانا معمول ہے۔ ہم شاید کبھی اندازہ نہیں کر پائے کہ اصل میں ہم ہیں کون اور جو راہ آرٹ کے نام پر ہم اختیار کرتے ہیں وہ کیا ہے۔ کیا ممالک کے بیچ لکیریں بے فائدہ ہیں؟ نہیں ۔ کیا ان لیکروں کا مقصد فکری اور نظری طور پر قوموں کے درمیان فرق کرنا نہیں ہے؟ ہمارا ہر رنگ دوسروں سے جدا ہے۔ ہمارے کلچر کی اپنی اہمیت ہے۔ پھر نا جانے کیوں ہم یہ بھول جاتے ہیں اور اپنے کلچر اور آرٹ کو بھلا کر دوسروں سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتے۔ چونکہ ہر کسی کا اپنا کلچر ہے تو جو دوسروں کے نزدیک بہت عام بات ہے۔وہ ہمارے نزدیک ہم سے بلکل مشابہ نہیں رکھتی پر ہم پھر بھی دوسروں کے کلچر کو بہت فخر سے اپنے ہاں فروغ دیتے ہیں ۔ نا جانے کیوں ہم اپنے آرٹ اور کلچر کو بھلا کر دوسروں سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتے۔ بدلتے ہوئے اس دلدل میں عورت کو آرٹ کے نام پر کٹھ پتلی کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم واقعے ہی آزاد خیالی کے نام پر یہ بھول چکے ہیں کہ عورت کا مقام بہت بلند ہے جسے وہ خود بہت بےباکی سے روندتی ہے۔ کیا آرٹ کے نام پر ضروری ہے کہ عورت کو مردوں کے ہجوم میں نچوایا جائے۔ صرف اس لیے کہ اس کے بغیر فلم کی مقبولیت میں خدشات پیدا ہو جاتے ہیں؟ اگر عورت کو دکھانا مقصود ہے تو اس کے کوئی اور روپ کیوں نہیں دکھائے جا سکتے جیسے بطور ماں، بہن اور بیٹی کے۔ یہ سلسلہ کاش محبوبہ تک رک جاتا مگر یہ تو عورت کو رقاصہ بنا بیٹھے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آرٹ کیا ہے؟ تو فلم اور آرٹ الگ چیزیں نہیں ،فلم خود میں ہی ایک آرٹ ہے۔کبھی بھی غیر فطری چیز ہمارا آرٹ نہیں ہو سکتی۔ دنیا میں کوئی چیز پوری نہیں انسان خود اپنے آپ میں آدھا ہے۔ آرٹ اس چیز کو بھی کہہ سکتے ہیں جو انسان کے آدھے پن کو پورا کرے۔ انسان جیسا بھی ہو جو بھی ہو، جب وہ آرٹ دیکھتا ہے تو اس سے متاثر ہوتا ہے۔ یہاں بات فلم کی ہو رہی ہے تو فلم میں آرٹ دکھانا بھی ایک آرٹ ہے۔فلم کا مقصد انسان کو اپنی چیزوں سے دور کرنا نہیں اسے اپنی ہی چیزوں کا احساس دلانا ہے۔ انسان کو وہ خوبصورتی دکھانا ہے جو اس کے پاس ہی ہے پر وہ اسے دیکھ نہیں پاتا۔انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کرنا کہ جو وہ ہے کیا ہے اور کیوں ہے۔ پر افسوس آج لالچ کی نظر ہم نے اس آرٹ کو نظر انداز کر دیا ہے۔ ہم نے ان چیزوں کو آرٹ بتا دیا جو ہماری تہذیب میں پائی ہی نہیں جاتی۔ بجائے اس کے کہ ہم دیکھنے والوں کو اپنی تہذیب کی قیمت بتائیں اس کی خوبصورتی دکھائیں ہم نے غیر چیزوں کو دکھانا شروع کر دیا ہے۔ جو ہماری تہذیب کا حصہ ہی نہیں ہیں۔ ہمارے لیے اہمیت ہماری تہذیب کی ہونی چاہیے ،ہمارے ملک کی ہونی چاہئے کہ فلم میں کیا صحیح ہے کیا غلط ،کیا گوارا ہے کیا نا گوار۔اور اگر آرٹ کو بیان کرنے کی بات کی جائے تو لفظ ختم ہو جا ئیں گے لیکن آرٹ کو بیان نہیں کیا جا سکے گا۔ یہ ایک وسیع سمندر ہے جس میں ہماری تاریخ ،ہمارا آج اور ہمارا کل بستا ہے۔ ثقافت کا فلم کا مقصد کبھی معاشرے کو اس نہج پر پہنچانا نہیں تھا فلم کا مقصد ہمیشہ سے لوگوں کواردگرد سے آشنا کرنا تھا۔ اس بات کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ رقص ہماریکا حصہ ہے۔ لیکن اس کو تب ہی دکھانا چاہیے جب تحریر کا حق ادا کرنا پڑے، یعنی جب دکھانا ناگزیر ہو۔ نا کے بلاوجہ دکھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنی فلم آرٹ کو بلندی تک لے کر جانا چا ہتے ہیں تو ہمیں وہی دکھانا ہو گا جو ہمارا اپنا ہے اور ہم میں ہی موجود ہے۔ہمارا ملک اپنی تہذیب اور ثقافت سے مالامال ہے۔ فلم سازوں کو سمجھنا ہو گا جس کو وہ حیات نو کا نام دیتے ہیں اصل میں ہماری تہذیب و ثقافت کو اندھیرے میں دھکیل رہے ہیں۔ ایسے بہت سے فلم ساز ہیں جو اس بات کی نزاکت سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ان کو مواقعے فراہم کرنے ہوں گے اور جو فلم ساز پہلے سے کاوشیں کر رہے ہیں انہیں بھی اس بات کی حساسیت کا اندازہ کرنا ہو گا۔ ہمیں دوسروں کے آرٹ سے اثر انداز ہونے کے بجائے اپنے ملک کے آرٹ کی قدر کرنی ہوگی کیوں کے جب ہم خود اپنی قدر نہیں کریں گے تو دوسروں سے توقع کیسے رکھیں گے؟ اور جو قوم اپنی اصل بھول بیٹھتی ہے وہ دنیا کے نقشے سے مٹ جاتی ہے، اور اب ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں اپنے اصل کو رکھنا ہے یا دنیا کہ نقشے سے مٹنا ہے؟
0 comments