چھجو کا چوبارہ

  • چھجو کا چوبارہ

    تحریر : افضل خان احمدانی

    یوں تو ہم نے بے شمار موضوعات پر اپنے قلم اور زبان کو اسپی رفتار سے دوڑایا ہے مگر جس موضوع پر ہمارا قلم اور زبان دونوں گنگ سے ہو گئے " صبح خیزی کے فوائد "ہے۔ہم نے زندگی بھر صبح نہ خیزی کے مزے لوٹے اور اس کے جملہ نقصانات کو خندہ پیشانی سے گلے لگایا ہے۔انگریزی محاورہ ہے کہ جب عزت لٹنا ناگزیر ہو جائے تو مدافعت چھوڑو اور (کم از کم ) اس سے لطف (تو) لینا شروع کر دو۔تیسری دنیا کے باسی اگر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آواز اٹھانے کی بجائے ان سے لطف کشید کرنے لگ جائیں تو ان کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ خوش رہنے والی قوموں میں ہونے لگے گا۔ہم نے ہمیشہ صبح خیزی کو اپنے ساتھ زیادتی ہی سمجھا اور جہاں جہاں ممکن ہوا دامے، درمے، قدمے،سخنے اس کے خلاف صف آرا ہوئے۔تعلیمی زندگی کا ہر درجہ یہ سوچ کر طے کیا کہ اگلی دفعہ
    حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے، مگر یہ کبھی نہ ہو سکا۔ سکول ،کالج اور یونیورسٹی ،ہر ادارہ ایک کے بعد ایک ضابطہ لاتا رہا۔ہم بعض اوقات دل ہی دل میں اور اکثر اوقات بآوازِ بلند دنیا کے اس نظام کو دشنامی حملوں کی زد پہ رکھتے رہے،جس کی کم ذوقی نے صبح کو سونے کی بجائے کام کرنے کا وقت تصور کر لیا تھا۔حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ (معقول) انسانی ذہن کی آنکھ تو طلوعِ شام کے بعد کھلنا شروع ہوتی ہے(مگر دنیا معقول افراد کے ہاتھوں چلتی کب ہے)۔
    ملٹن نے کہا تھا جہنم ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے۔بی ایس  کے دوران ہم نے بھی ایک سال جہنم میں گزارا۔ایک سال تک ایک سکول میں انگریزی پڑھانے کی خاطر صبح چھے بجے سے جو بستر چھوڑا تو لائبریری، یونیورسٹی کلاس اور پھر دوستوں کی دلداریوں میں شام سات بجے تک لگاتار مسلسل جاگنا پڑا کہ ایک لمحہ کمر سیدھی کرنے کی فرصت نہ ملی۔
    وہ صبح بھی ان بے زار صبحوں میں سے ایک تھی جب صبح خیزی کی بدولت ہمارا موڈ سخت خراب تھا۔ہم کسی لطیفے پر ہنسنے کے روادار نہ تھے۔رفاہ  کے مرکزی گیٹ کے پاس کھڑے ہم اس گاڑی کا انتظار کر رہے تھے جس میں ہمارے علاوہ تین اور بے زار شکلیں بھی سوار ہوتی تھیں ۔  گیٹ پر معمول کے مطابق کسی سٹوڈنٹ اور سیکیورٹی گارڈ میں جھگڑا جاری تھا۔ وہ یونیورسٹی کارڈ بھول آیا تھا اور لکیر کا فقیر گارڈ کارڈ کے بغیر اسے اندر جانے نہیں دے رہا تھا۔
    "انکل پلیز! اندر جانے دیں ۔میرا ٹیسٹ ہے۔پریشانی میں کارڈ ہاسٹل رہ گیا۔پلیز انکل یہ دیکھیں نا یہ میرے کلاس فیلو ہیں ۔یہ بھی گواہ ہیں میرے۔ اور یہ دیکھیں کلاس روم میں فلاں سر اور ڈھمکاں میڈم کی کلاس میں میری سوتے ہوئے کی ویڈیو بھی ہے۔ میں اسی یونیورسٹی کا ہوں"۔ وہ اردو انگریزی کی تمام تر میسر طاقت آزما رہا تھا۔مگر انکل تھے کہ اڑیل گھوڑا بنے اس کا پیش کردہ کوئی بھی ثبوت ،کوئی عذر خاطر میں نہیں لا رہے تھے۔ایک ہی رٹ کہ" واپس جاؤ۔ کارڈ لاؤ۔میں تمھیں نہیں جانتا"۔
    دنیا میں انسان نے جہاں جہاں اس افہام و تفہیم کی کمی پائی وہیں اس نے تہذیب کو گڈ بائے کہ کر طبلِ جنگ بجایا ہے۔جب منت سماجت اور اردو انگریزی بھی دال گلانے میں ناکام ہو گئیں تو ایک بجلی کڑکی۔
    "مر پراں ۔چروکنا میں تیرا بوتھا ویکھ ریاں ،توں میرے سِر چَڑیا جاندا ایں۔جے میں تینوں جاندا ں تے توں کیویں مینوں نہیں جاندا۔جتنا میں تیرا شرم کیتا توں نری لکو لاہ چھڈی اے۔آہ پیا جانداؤں میں ۔اگو ڈک کے وکھائیں لمیاں نہ پا لواں تے آکھیں گوندل نہیں ۔"
    (پرے مرو۔کتنی دیر سے میں تمہارا منہ دیکھ رہا ہوں اور تم میرے سر پر چڑھ رہے ہو۔اگر میں تمہیں جانتا ہوں تو تم مجھے کیسے نہیں پہچانتے۔میں تمہارا لحاظ کیے جا رہا ہوں مگر تم نے تو ساری شرم بالائے طاق رکھ دی ہے۔یہ دیکھو تمہارے سامنے سے جا رہا ہوں ۔ آئندہ مجھے روک کے دیکھنا وہیں لمبا لٹا کے نہ ماروں تو کہنا میں گوندل نہیں ہوں۔)
    وہ سکیورٹی گارڈ کو دھکیل کر اندر گھس آیا تھا اور حیرت انگیز طور پر گارڈ نے اسے روکا نہیں بلکہ بہت شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اندر آنے دیا۔میری ساری بے زاری کافور ہو گئی۔ ایک زوردار قہقہہ لگا کر میں نے گویا ساری نیند بھگا دی تھی۔اس سے پوچھے بغیر بھی میں شرط لگا سکتا تھا کہ وہ منڈی بہاؤالدین سے ہے۔اس کا انداز اور لہجہ ہی نہیں " چروکنا "( کتنی دیر سے ) بھی میرا جانا پہچانا تھا۔
    اس شہر کے تمام باسی ایسے ہی ہیں ،  عزت سے بات کرتے ہیں، محبت دیتے ہیں ،منت سماجت کرتے ہیں اور جب اس سب سے کام نہیں چلتا تو ساری اردو انگریزی کو ایک طرف رکھ کر ایک دھکا مار کر اندر داخل ہو جاتے ہیں۔لیکن یہ دھکا کسی کو نکالنے کے لئے نہیں خود داخل ہونے کے لئے مارتے ہیں۔ یہ انداز،یہ رویہ زندگی میں جہاں بھی نظر آیا ہم نے بے خوف و خطر" السلام علیکم یا برادرانِ اسلام " کہہ کر دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔اور ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہمارا اندازہ غلط ثابت نہیں ہوا۔بندہ شرطیہ اسی شہر کا نکلا ۔
    "حب الوطنِ من الایمان" کے مصداق اپنے شہر سے محبت کی شدت کی بنیاد پر ہم نے خود کو ہمیشہ راسخ العقیدہ مومن سمجھا۔ہر شخص کو اس مٹی ،پانی اور آب و ہوا سے پیار ہوتا ہے جس نے اس کی تشکیل و تکمیل کی ہو۔ اس زمین کی خو شبو خون میں ہی نہیں ڈی این اے میں بھی رچ جاتی ہے۔وہ شخص اس مٹی سے جتنا بھی دور چلا جائے ،مٹی اس کے اندر رہتی ہے جس کا بت اس دل کے نہاں خانے میں یکتا و واحد پڑا رہتا ہے۔اور نومسلم ہندو کے دل میں مدتوں سے مقیم بت کی طرح ذرا سا موقع پاتے ہی باہر نکل کے کھڑا ہو جاتا ہے۔ لاکھ ایمان لانے کے باوجود اس جگہ سے نہ خود نکلتا ہے،نہ ہی کسی اور کو اس جگہ داخل ہونے دیتا ہے۔آبائی گھر، بچپن اور اجداد کی قبروں سمیت بہت کچھ اس مٹی میں رہ جاتا ہے جس کی کشش ہر دیس سے اپنی طرف کھینچتی رہتی ہے۔ہم نے بھی اس شہر سے ہجرت کے بعد دوست بنانے اور خوش رہنے کے ساتھ ساتھ فروٹ چاٹ اور سموسے بھی کھانے چھوڑ دیئے کہ جو مزا چھجو کے چوبارے ،وہ بلخ نہ بخارے۔

    مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

    وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

     

    محلِ وقوع کے اعتبار سے یہ شہر اگر ایک طرف چناب کی تند وتیز،پر شور لہروں کی صدا کے حصار سے باہر نہیں نکلتا تو دوسری طرف دریائے جہلم اپنی وسعتوں اور روانیوں کے ساتھ اسکے گردبازو لپیٹے ہوئے ہے۔ دو ملاؤں میں مرغی حرام ہوتی ہے مگر دو دریاؤں کے درمیان زمین سونا اگلتی اور ہیرے پیدا کرتی ہے۔ہم نے اپنے سمیت جتنے ہیروں کا سراغ لگایا ،ہم اسی فسوں خیز زمین تک جا پہنچے۔ جنوبی ایشیا کی زرخیز ترین پٹی میں شامل یہ علاقہ دنیا کو چاول،گنااور کپاس ہی نہیں گندم بھی دیتا ہے۔اسی لئے یہاں کے خمیر میں اصلی باسمتی اور سپر کرنل سے مزین دھان کے کھیتوں کی بھینی بھینی خوشبو،گنے کی مٹھاس اور کپاس کی نرمی و گرمی اس طرح شامل ہے کہ یہاں کے لوگ دوسروں کے لئے گندم کی طرح ناگزیر ہو جاتے ہیں۔

    گائے ،بھینسیں ،بھیڑ بکریاں اس قدر فراواں کہ کچھ عرصہ پہلے تک تو دودھ گھی بیچنا توہین اور بزرگوں کی بددعا کا اثر سمجھا جاتا تھا۔گدھے اور گھوڑے کثیر تعداد میں موجود مگر اتنے ارزاں نہیں کہ انسانوں کو کھلے عام کھلائے جائیں اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو، ابھی ان کی اہمیت باقی ہے ۔انسانوں کے کھانے کے علاوہ بھی ان سے مفید کام لینے والے ابھی موجود ہیں۔ٹیوب ویلوں اور نہروں کے پانی سے رواں شفاف کھالوں میں چلتے چلتے تازہ شلجم ،مولی اور گاجراکھیڑ کر دھو لو اور کھالو،تو کوئی آپ کا دشمن نہیں بن جاتا ہے۔جنت کا تصور عرب جغرافیے کی بجائے اگر زرعی علاقوں سے تشکیل پائے تو اس سرزمین کوبطور عملی مثال پیش کیا جائے گا۔اگر جنت سے مراد خوراک اور انعام کی فراوانی ہے، کھلے ہوادار روشن مکانات ،سیدھی اور چوڑی گلیاں ہیں ،ذہنی سکون کی بہتات اور خوشیوں کی شراکت داری ہے تو قسم بخدا،

    ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

    دور دور تک پھیلے کھلیان ،نہروں کے جال میں گھری زمینوں اور ہموار میدانی علاقہ ہونے کے سبب اس مٹی کے بچوں کی شخصیت میں بھی یہی وسعت،یہی کھلا پن ہے۔یہاں پہاڑ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ہاں دور پہاڑوں کے ہیولے نظر آتے ہیں جو لینڈ سکیپ کے حسن میں اضافہ تو کرتے ہیں مگر نظر کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے۔تاحدِ نظر زمرد کی مانند سبز دھان یا سونے جیسی گندم کے کھیت ہیں ۔لہذا نظر اور سوچ دور تک جاتی ہے۔پانی،غلے اور گوشت کی کثرت ہے چنانچہ وہ فراخدلی ہم سب میں ہے جو صرف کثرت کی دین ہوا کرتی ہے۔ یہاں سب کے دماغ اور ہاتھ کھلے ہیں ۔لوگ زودرنج نہیں۔اس مٹی کوسینے پر ہل چلائے جانے کی عادت ہے۔اسے خبر ہے جن زمینوں سے اچھی فصل حاصل کرنا مقصود ہو ،اس کو ہل چلا کر ہی خوب نرم کیا جاتا ہے۔سو یہاں کے لوگ معاف کر دینے والے لوگ ہیں۔
    وسعت اور کھلا پن بلکہ کھلا ڈلا پن اس زمین اور اس کے باسیوں کی پہچان ہے۔کئی بار ایسا ہوا کہ جس جملے پر اپنے شہر میں ہم نے ڈھیلا
    جملہ ہونے کی تہمت سہی،وہی جملہ پوٹھوہار میں بول کر ہم اخلاقیات کے مجرم قرار پائے۔اس علاقے میں محبت اور فراخدلی کی اس سے بڑھ کر مثال کیا ہو گی کہ یہاں جو گالیاں دوستی اور محبت کی علامت کے طور پر ہنسی خوشی دی اور لی جاتی ہیں ،ان کا عشرِ عشیر بھی پوٹھوہار یا خیبر پختونخواہ میں ایسی دشمنی کی بنیاد ڈال دے گا جس میں برسوں تلک؛

    کبھی پانی پینے پلانے پہ جھگڑا

    کبھی گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا

    ہوا کرے گا۔

    یہ علاقہ لینڈ انکروچمنٹ یا قبضہ مافیا جیسی بیماری میں مبتلا ہے۔مگر یہاں قبضے کی وجہ کمی نہیں زیادتی ہے۔ویہلی جٹی اون ویلے ( فراغت سے مجبور ہو کر مٹیار اون کاتتی ہے)کے مصداق زندگی میں تھرِل کی خاطر قبضہ کیا جاتا ہے۔مگر یہ قبضہ مستقل نہیں ہوتا ۔فریقِ مخالف کے پاس اگر ایک آدھ آدمی یا بندوق زیادہ ہو جائے تو قبضہ راتوں رات واپس بھی لیا جا سکتا ہے۔پولیس کا گھروں میں آنا اور عورتوں کے ہاتھوں مار کھا کر یا بے عزت ہو کر واپس جانا معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔کوئی اسے قانون کی بے عزتی یا کارِ سرکار میں مداخلت تصور نہیں کرتا۔یہاں کھیتوں میں رفع حاجت اور سرسوں کا ساگ توڑنے کی اجازت کوئی نہیں مانگتا۔یہ دونوں حق ہر انسان کے پیدائشی حق سمجھے جاتے ہیں۔البتہ ان سے روکنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ضرور ہو سکتی ہے۔بھلے انسانی حقوق کے کسی عالمگیر چارٹر میں انھیں تحریر نہ کیا گیا ہو،مگر اس سرزمین پر داد اور کھاد کی یہ باہمی فراہمی وہ خاموش معاہدہ ہے جس کے نشان تمام کھیتوں پر ثبت ہیں۔قبضہ مافیا کی خو اس دھرتی میں بھی ہے۔بس اتنا فرق ہے کہ اس کا قبضہ عارضی نہیں ہوتا۔یہ زمین برِصغیر کی عمومی روش کے مطابق پہلے فیسی نیٹ کرتی ہے اور جب لوگ علم یا رزق کی تلاش میں ہجرت کر جاتے ہیں تو ساری عمر انھیں ہانٹ کرتی رہتی ہے۔
    اپنی زمین سے محبت انسانوں کو جوڑتی بھی ہے اور اگر اس میں غلو کیا جائے تو یہ تعصب بن کر لوگوں اور اللہ کی زمین کو تقسیم بھی کر دیتی ہے۔اس شہر کی وجہ تسمیہ یہاں پہلے پہل غلے کی منڈی لگنا بتائی جاتی ہے۔اور یہ خوبی بھی کچھ اسی سرزمین کا حصہ ہے کہ "منڈی ہونے کے باوجود اس نے اجناس کی تجارت تک ہی خود کو محدود رکھا۔انسانوں اور ان کے جذبات کو مالِ تجارت نہیں بننے دیا۔" یہاں کے باسی ہر طرح کے حالات اور کلچر میں زندہ رہنے اور رچ بس جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ علاقہ انھیں ہر علاقے کا مکین بنا دیتا ہے مگر قبضہ مافیا کی طرح اپنا تسلط بھی کم نہیں ہونے دیتا.یہاں رہنے والے امریکہ جائیں یا یورپ،یہاں واپسی کے لئے بے قرار رہتے ہیں۔دیارِ غیر میں بدیسی پہناووں اور کھانوں کے رسیا بھی یہاں پہنچنے کی اگلی صبح کھیتوں میں رفع حاجت کی غرض سے جاتے ہیں تو واپسی پر منہ میں کیکر کی مسواک کے ساتھ ہاتھ میں تازہ تازہ گنا بھی لے کر واپس آتے ہیں۔یا پھر ایک ہاتھ سے دھوتی سنبھالتے دوسرے ہاتھ سے نالی کے صاف پانی میں شلجم دھوتے ہیں۔شلجم کی یہ خوشبو، ذائقہ اور بائٹ کی یہ آواز بھلا اس زمین کے علاوہ اور کہاں آسکتی ہے۔

    طائر ہوا میں مست ،ہرن سبزہ زار میں

    مگر اس مٹی کے باسی چاہے جہاں بھی ہوں ان کے دل ا سی بن میں مست ناچتے ہیں۔