گردابِ خود فریبی

  • گردابِ خود فریبی

    تحریر : افضل خان احمدانی

    ہماری زندگی گمنام راستوں اور تارک و روشن گلیوں کا ایک ایسا کھیل ہے جس میں سیدھی زمین، پتھریلے پہاڑ، چٹانیں، کانٹے، پھول، بھول بھلیاں، آگ کے الاؤ، خواہشات و ہوس کی اندھی گوٹیوں کی موجودگی میں نفس و ضمیر کی ایک ایسی خوفناک جنگ رہتی ہے کہ یہ کھیل کبھی اپنے اختتام کو نہیں پہنچ پاتا۔ ہاں! بہر حال ایک انسان کے خاک ہونے کے بعد دوسرے نومولود میں منتقل ضرور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح یہ کھیل مختلف کھلاڑیوں اور وقت کے بے رحم شکنجے کی پکڑ اور اصول و قوانین کے ظالم رد و بدل کے ساتھ جاری و ساری رہتا ہے۔زمانہ مسلماں'' کے مختلف قصے اور کتھائیں آج بھی مسلمان والدین فخر سے اپنے بچوں کا دل بہلانے اور ان کو خوابوں کی دنیا میں پہنچانے کیلئے سناتے ہیں۔ اگر تاریخ کے اوراق کا غیر جانبدارانہ اور ایماندارانہ مطالعہ کیا جائے تو اس بات کا بھی ہمیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ عروج و زوال، بلندی و پستی، غم و خوشی، شب و روز، سنّاٹا و غوغا، رونق و اجاڑ، آبادی و ویرانی، عقل و بے وقوفی، تخت و غلام اور زرخیزی و بنجر پن، شفافیت و داغ دار، گل و خار، خدا و فرعون ہمیشہ اک دوجے کے شانہ بشانہ رہے ہیں کیونکہ یہ تمام چیزیں لازم و ملزوم رہی ہیں۔ گو کہ ہر اک چیز کی خوبصورتی اس کے تضاد کی موجودگی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔

    کسی چیز کا مطالعہ ادھورا چھوڑ دینا نا انصافی ہوتی ہے اور ایک حق ادا نہ کر کے آپ اپنے ضمیر کی خود سماعت عدالت میں مجرم قرار پاتے ہیں۔ مگر آج کل کون اپنے ضمیر کی سنتا ہے۔ یہاں تو اینٹ اور سیمنٹ سے انسان کے اپنے ہاتھ سے بنی اپنے ہی بنے قانون کو خود سے ہی عمل میں لائی گئی عدالتوں کی دہلیز پر مُک مُکا کیا جا رہا ہوتا ہے اور ہر چیز کی کانوں کان خبر ہوتے ہوئے بھی ایک منصف اپنے منصب سے عہدہ بر آ ہو کر خود کو کاغذ کے چند ٹکڑوں اور شباب کے وقتی مزے کے عوض فروخت کر ڈالتا ہے۔ جہاں ایک شخص کو پوری دنیا کے سامنے اپنی غیرت و عزت اور فرائض کا سودا کرنے سے کوئی عار نہی، وہ تنہائی میں اپنے ضمیر کی کیا خاک سنے گا، وہ تو ضمیر اس عدالت کو اپنے جرم اور گناہوں کے بوجھ تلے ایسا دبا دیتا ہے کہ ضمیر میں سکت نہی رہتی کہ وہ عدالت لگا سکے کیونکہ اسے اپنے ہی ہاتھوں مار دیا جاتا ہے تو تاریخ کی بات سے آگے چلوں گا، جس رویے کا میں ذکر کرنے جا رہا ہوں، یہ رویہ دنیا کے تمام مذاہب بالخصوص مسلمان والدین میں گھٹی پا چکا ہے۔ ہم اپنی نئی نسل کو خوابوں کی ایسی خود ساختہ جنت میں پناہ دیتے ہیں جس سے ہمارا کوئی دور کا بھی عملی و مستند تعلق نہیں ہوتا۔ بچوں کو تاریخ کا بتایا جاتا ہے، اپنے (خود ساختہ) بزرگوں کے قصے سنائے جاتے ہیں، ان کی بہادری کے ہار لٹکائے جاتے ہیں، دنیا کی مختلف اقوام کیلئے نفرت پیدا کی جاتی ہے، خود کو اعلی اور دوسرے کو نیچ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، ایسی ایسی جنگوں کے قصے سنائے جاتے ہیں جن کا کہیں تاریخ میں ذکر تک نہیں ہوتا۔ اس تمام کھیل میں والدین مختلف سنجیدہ پہلو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ سب سے اہم چیز بچے کی تربیت پر اثر ہے، جسے بے دردی سے کچل دیا جاتا ہے۔ ان تمام لوگوں سے، جن کو وہ اپنا بزرگ کہتے ہیں، کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ (وہ عربی/پارسی ہوتے ہوئے بھی آپ کے بزرگ ہوئے۔ وائے گرو) دوسرا سب سے اہم مسئلہ ان اوراق کو ادھورا چھوڑ دینا ہے، اس میں مزید دو پہلو شامل ہوں گے، یا تو بچے کو اپنے ان خود ساختہ بزرگوں کی شکست کا کبھی ذکر ہی نہیں کیا جائے گا یا تو ان کی شکست کو بھی ان کی جیت تسلیم کر کے پیش کیا جائے گا اب ان تمام حالات میں جب کوئی کُل اپنے جزو سے وفادار نہیں تو وہ جزو کَل کو کیسے کسی قوم کی تعمیر میں مثبت حصہ ڈال سکتا ہے۔ تمام والدین کو ایک چیز باور کر لینی چاہیے کہ آپ کے بچے قصے سن کر کبھی بھی عمل نہیں کریں گے، وہ فقط قصے ہی سنتے رہیں گے۔ خدارا ان کو وقت دیجئے اور ان کی عملی تربیت پر زیادہ توجہ دیجئے کیونکہ بچہ وہی کرتا ہے جو کہ آپ کو کرتے ہوئے دیکھتا ہے نا کہ وہ جو آپ نصیحت در نصیحت کرتے ہو۔

    اب پھر وقت کا وہی گمنام اور بے رحم کھیل اسی طرح چلتا رہتا ہے، والدین اصول و قوانین تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ بچے ایک ننھے پودے سے تنآور درخت کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ تب انہیں ایک اور اہم سبق پڑھایا جاتا ہے جب کہ ان کے رشتے کی بات آتی ہے۔ اس سبق میں اس بات کو نظر انداز کر کے کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا اور کھیل کے اصول بدلتے بھی ہیں، یہ سکھایا جاتا ہے کہ کسی دوسرے کا گھر کیسے اجاڑنا ہے۔

    انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ نا جانے کتنے ہی والدین کسی دوسرے کی بیٹیوں کی زندگی فقط جہیز کی سی لعنت کے نہ ہونے کی وجہ سے اجاڑ دیتے ہیں۔ اس صورت میں مجھے یاد آتا ہے کہ بیٹی تو رحمت ہوتی ہے، مگر جب کوئی بیٹی اپنے گھر لا رہے ہو تو پھر لعنت کا دروازہ کیوں کھولتے ہو۔ گھر میں رحمت و توبہ کے دعوے دار تو سب ہوتے ہیں مگر ان تمام عباد توں کو واپس منہ پہ مار دیا جائے گا جس میں عملی طور فقط لعنت شامل ہوگی۔

    ہر تصویر دو سمتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایک وہ جو نظر آ رہی ہو، دوسری وہ جسے ہم نظر آ رہے ہوں۔ رشتوں کی جہاں تک بات ہے، خونی رشتوں کو ہمیشہ سے فوقیت دی جاتی رہی ہے مگر تاریخ میں سب سے زیادہ دغا بھی اسی خون نے دیا ہے جسے اپنے جسم سے سینچا گیا ہو۔

    ہمارے بابا جی کہا کرتے تھے:

    '' بیٹا! رشتہ صرف خون کا ہی نہیں ہوتا۔ رشتہ احساس سے بھی بنتا ہے جو کہ خونی رشتے سے زیادہ مضبوط اور دیر پا اثر انگیز ہوتا ہے۔ ''

    دراصل احساس، قدر، محبت، رویے، اخلاق اور آہ سے بننے والا رشتہ شفافیت کا حامل ہوتا ہے۔ احساس کے رشتے کی نسبت خونی رشتے کے لالچ، خود پرستی، مفاد پرستی، ذاتیات پر منحصر ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

    یہی خونی رشتہ ہی تھا جس نے ہابیل اور قابیل کے مابین ایسی پھوٹ ڈالی کہ انسانیت کا قتل کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد تاریخ کے ہزاروں اوراق انسان کے خون کی روشنائی سے ہی لکھے گئے۔